مسعود انور
آخر اِس وقت پاک بھارت کشیدگی کیوں پیدا کی گئی ، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کہیں پر نظر نہیں آتا ۔ مین اسٹریم میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ، ہر جگہ پر یا تو میمز ہیں یا پھر رواں صورتحال پر کمنٹری ۔ یہ سوال دیکھنے میں جتنا سادہ ہے ، اس کا جواب بوجھنا اتنا ہی پیچیدہ ۔
اس سوال کا جواب بوجھنے سے پہلے دیکھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کا فائدہ کس کس کو کس طرح سے پہنچا ۔ یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم ایک گلوبل ولیج میں رہ رہے ہیں ۔ یہاںپر کوئی بھی ملک اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا ۔ یوکرین کو ہی دیکھ لیں کہ پورا یورپ اس کے ساتھ تھا مگر جب عالمی کھلاڑیوں کو اس کے وسائل پر قبضہ کرنا تھا تو اسے قابو میں کرنے کے لیے مھض ایک دھمکی کافی تھی کہ اس کا جی پی ایس سسٹم بند کردیا جائے گا ۔ جی پی ایس سسٹم بند کرنے کا مطلب تھا کہ یوکرین دشمن کے سامنے ایک کھلا ہدف بن جائے گا اوردشمن کے ڈرون و میزائل یا فضائی حملوں میں وہ اپنا دفاع نہیں کرسکے گا ۔ اسے دشمن پر میزائل فائر کرنے یا ڈرون حملہ کرنے کے لیے بھی کوئی رہنمائی مہیا نہیں ہوگی ۔ محض اس ایک دھمکی نے زیلنسکی کو وہ سب کچھ کرنے پر مجبور کردیا جس کے لیے وہ کبھی تیار نہیں تھا ۔
یہاں پر بات واضح رہے کہ اس میں مسلمان ، یہودی اورعیسائی کی کوئی تخصیص نہیں ہے ۔ زیلنسکی یہودی ہے اور درجنوں مرتبہ اسرائیل کے ساتھ وفاداری کا اعلان سرعام کرچکا ہے ۔ وہ اسرائیل کی دہری شہریت کا بھی حامل ہے ۔ یوکرین میں بسنے والے بھی مسلمان نہیں ہیں ۔ مگر وسائل پر قبضے کے لیے نہ تو مذہب دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی رنگ و نسل ۔
پاک بھارت کشیدگی کا سب سے پہلا فائدہ اسرائیل کو پہنچا کہ جب تک پاکستان و بھارت میں جنگ جیسی صورتحال تھی ، پورے بین الاقوامی میڈیا کو یہیں پر مصروف کردیا گیا اور غزہ میں ہونے والے انسانی المیہ کو پس منظر میں پھینک دیا گیا ۔
اس کا دوسرا فائدہ مودی کو پہنچا کہ ایک طرف تو بھارت میں اسے اپنا ووٹ بینک مزید مستحکم کرنے کا موقع ملا تو دوسری جانب کشمیر سمیت پورے بھارت میں اسے مسلمانوں کے خلاف خون کی ہولی کھیلنے کی کھلی چٹ مل گئی ۔ جنگ کے بخار میں بھارتیوں کو مبتلا کرنے کا ایک اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اب مودی جی اور ان کےساتھیوں کی کرپشن سے بھی عوام کی توجہ ہٹ گئی ۔
اس کا ٹرمپ کو بھی فائدہ ہوا کہ بطور عالمی رہنما اس کے قامت میں اضافہ ہوا اور اب ٹرمپ کی ایک ایسے ڈکٹیٹر کی حیثیت مسلم ہوگئی ہے جو پوری دنیا میں اپنا ڈکٹیشن دیتا پھرتا ہے اور بھارت کو بھی اس کے سامنے نہ کہنے کی جرات نہیں ہے ۔
اس کا فائدہ روس کو بھی ہوا کہ یوکرین کی جنگ بھی پس منظر میں چلی گئی ۔
اس کا فائدہ چین کو بھی ہوا کہ اس کی ہتھیاروں کی صنعت نے اچانک ہی دنیا میں ساکھ بنا لی ۔ اس سے قبل چین کے جہاز اور میزائیل سستے ہونے کے باوجود دنیا میں ناقابل اعتبار تصور کیے جاتے تھے ۔ اب چین کے جہاز J10C کو امریکی جہاز F16 کا مقابل گردانا جا رہا ہے ۔ کچھ یہی صورتحال اس کے میزائیل اور ڈرون کی ہے ۔
ترکی کے ڈرون نے دنیا میں پہلے ہی اپنا لوہا منوایا ہوا ہے ۔ اب اس کی مارکیٹ مزید مستحکم ہوگئی ہے ۔
اس کا فائدہ پاکستان کو بھی ہوا ۔ یہاں پر فتح کے ڈرم پیٹے جارہے ہیں اور شہباز شریف کی نااہلی اس کی وجہ سے پس منظر میں چلی گئی ہے ۔ اس کا فائدہ جنرل عاصم منیر کو بھی ہوا کہ اب وہ فیلڈ مارشل کے منصب پر فائز ہو کر پنج ستارہ جنرل ہوگئے ہیں ۔ آئین میں 26 ویں ترمیم کے خاتمے کی جو تحریک اندر ہی اندر چل رہی تھی ، اب وہ دم توڑ گئی ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ اس کا نقصان کس کو ہوا ۔ اس کا براہ راست نقصان پاکستان و بھارت کے عوام کو ہوا ۔ دونوں جانب جانی نقصان بھی ہوا اور مالی بھی ۔ یہ تو شاید ہی کبھی درست طریقے سے پتا چل سکے کہ اس دوران پاکستان کا کتنا مالی نقصان ہوا اور بھارت کا کتنا، تاہم یہ جو بھی نقصان ہوا ، وہ ایسا ہے جس کے اثرات دسیوں برس دونوں ممالک کے عوام بھگتیں گے ۔
اس کا ایک ضمنی نقصان فرانس کی دفاعی صنعت کو بھی ہوا اور اب اس کے رافیل طیارے عالمی منڈی میں شاید ہی کبھی دوبارہ اپنی جگہ بنا پائیں ۔
فائدے اور نقصان کی اس شیٹ کو دیکھنے کے بعد بوجھنے کی کوشش کرتےہیں کہ آخر یہ میلہ سجایا کس کے لیے گیا تھا ۔ کیا سب کچھ ایسا ہی تھا جیسا پیش کیا گیا یا یہ ایک فکسڈ میچ تھا ۔
جیسا کہ میں نے اِس آرٹیکل کی پہلی قسط میں لکھا ہے کہ پہلگام کے واقعے پر خود بھارت میں کئی سوالیہ نشان اٹھ چکے ہیں ۔ اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں جاری تھیں ۔ پاکستان میں ان جھڑپوں میں شہید ہونے والے افراد کی نماز جنازہ کی تصاویر تو جاری کی جاتی تھیں مگر سرکاری طور پر نہیں بتایا جارہا تھا کہ یہ جھڑپیں جاری ہیں ۔
اسی طرح مئی کے شروع میں ہی آزاد کشمیر کے مدارس میں چھٹی دے دی گئی تھی ۔خبر رکھنے والے ہر فرد کو علم ہوچکا تھا کہ بھارت پاکستان میں منتخب اہداف پر سرجیکل اسٹرائیک کرے گا ۔ اب خود بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر ایک نیوز کانفرنس میں اس امر کا اعتراف کرچکے ہیں کہ بھارت پاکستان کو پہلے ہی اپنے اہداف کے بارے میں آگاہ کرچکا تھا ۔
اس بارے میں بھارت روس ، امریکا اور دیگر دوستوں کو بھی اعتماد میں لے چکا تھا جبکہ پورے کھیل میں اسرائیل اس کا پارٹنر تھا ۔ پاکستان بھی چین اور اپنے دیگر دوستوں کو اعتماد میں لے چکا تھا ۔ پہلے راؤنڈ تک تو معاملات طے شدہ تھے کہ پہلگام کے واقعے کے بعد بھارتی عوام کو پرسکون رکھنے کے لیے کچھ اسٹرائیک ہوں گی ۔ اس کے بعد کراچی تک ڈرونز کی پروازیں ، یہ مودی جی کی حد سے بڑھی ہوئی چالاکی تھی ۔ مودی جی کا خیال تھا کہ چونکہ اسرائیل ان کا پارٹنر ہے تو امریکا کو ہینڈل کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ۔ مودی جی کچھ اس گمان میں بھی تھے کہ ٹرمپ سے ان کے قریبی مراسم ہیں تو وہ اس کا فائدہ اٹھا کر کچھ ایسا کر لیں گے کہ انتہا پسند بھارتی ہندو ان کی مورتی بنا کر مندر میں رکھ لیں گے ۔
جیسا کہ میں نے اوپر بتایا کہ عالمی کھلاڑیوں کے نزدیک محض ان کے مفادات ہوتے ہیں ۔ مذہب ، رنگ اور نسل کی ان کے نزدیک چنداں کوئی حیثیت نہیں ۔ زیلنسکی کٹر یہودی ہے بلکہ صہیونی بھی ہے تو اس کے ساتھ انہوں نے کیا سلوک کیا ؟ معمر قذافی کا بیٹا ڈاکٹر سیف الاسلام روتھس شیلڈ کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا تھا تو کیا اس کے باپ کو معاف کردیا گیا ؟
اب تک کے تجزیہ سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسا محدود اووروں کا ٹی 20 میچ تھا ، جو سب کی جیت پر منتج ہوا ۔ بھارتی اپنے ملک میں جیت کے ترانے گا رہے ہیں تو پاکستانی اپنے ملک میں فتح کا جشن منا رہے ہیں ۔ مگر اس سےعالمی کھیل پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ پاکستان میں اب تک تو خیبر پختون خوا اور بلوچستان ہی بدامنی کی لپیٹ میں تھے تو اب سندھ بھی اس میں شامل ہوچکا ہے ۔ کراچی بار کونسل کے گزشتہ دنوں ہونے والے اجلاس میں سندھو دیش کا ترانہ ہوا کا رخ بتا رہا ہے ۔
ہو سکتا ہے کہ پاکستان بھارت میں سرجیکل اسٹرائیک کا تیسرا راؤنڈ بھی جلد ہوجائے کہ جنگ بندی مستقل نہیں ہوئی ہے بلکہ چند دنوں کے لیے ہوئ ہے اور اس میں روز اضافہ کردیا جاتا ہے مگر یہ معاملہ رہے گا ریسلنگ کی طرح ایک حد تک ۔ پہلے ایک پہلوان ایک پنچ لگاتا ہے جس کے بعد دوسرے پہلوان کی پنچ لگانے کی باری آتی ہے ۔ پہلا پہلوان زمین پر گرجاتا ہے اور دوسرے پہلوان کے حامی فتح کا شور مچانے لگتے ہیں مگر ریفری کی دس تک کی گنتی سے قبل ہی دوسرا پہلوان نہ صرف اٹھ کھڑا ہوتا ہے بلکہ مقابل پہلوان کو اٹھا کر پٹخ بھی دیتا ہے ۔ اب پہلے پہلوان کے حامی شور مچا کر اسٹیڈیم کو سر پر اٹھا لیتے ہیں ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔


