سندھ میں 17 سال سے برسر اقتدار پیپلز پارٹی کی حکومت اور اس کے زیر انتظام اداروں کی نا اہلی مکمل طور پر عیاں ہوگئی۔ بجلی،گیس سے محروم اور سڑکوں کی ابتر حالت سے ذہنی دباو اور کوفت کے شکار کراچی کے شہریوں کے لیے کربلا کی صورتحال بنا دی گئی، لوگ پانی کی بوند بوند کو ترسنے لگے ہیں، شہریوں کو مہنگے داموں بھی پانی دستیاب نہیں۔
واٹر کارپوریشن کی زیر نگرانی چلنے والے 7 ہائیڈرینٹس پر بھی پرائیویٹ واٹر ٹینکرز کنٹریکٹرز کا راج ہے، جو واٹر بورڈ اور ہائیڈرنٹ مافیا کی ملی بھگت سے سستے داموں پانی خرید کر عوام کو مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں، جبکہ شہر کے مختلف علاقوں کے رہائشی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ شہریوں کی سہولت کے لیے متعارف کی جانے والی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی آن لائن ایپ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ آن لائن ٹینکر سروس (کے ڈبلو ایس بی او ٹی ایس) کے ذریعہ بھی شہریوں کو پانی دستیاب نہیں۔
ذرائع کے مطابق شہریوں کے نام پر روزانہ سیکڑوں ٹینکرز مہنگے داموں شہریوں کو ہی فروخت کیے جاتے ہیں یا پھر ایم این ایز اور ایم پی ایز کے منظور نظر افراد کو دیے جاتے ہیں اور ایپ کے ذریعہ پانی منگوانے والے پانی کی راہ ہی تکتے رہ جاتے ہیں۔
شہریوں کو سرکاری ہائیڈرنٹس کا پانی مہنگے داموں فروخت میں کسی دور میں اعوان بابا واٹر ٹینکرز سروس مشہور تھا اور اب اس مکروہ دھندے میں غلام نبی واٹر ٹینکرز سروس، ایس ایم طارق اور سرفراز واٹر ٹینکرز سروس سر فہرست ہیں۔ غلام نبی کے پاس نیپا ہائیڈرنٹ کا کنٹریکٹ ہے، جبکہ ایس ایم طارق کے پاس لانڈھی ہائیڈرنٹ کا کنٹریکٹ ہے۔

ذرائع کے مطابق شہریوں کا پانی ان ہی کو مہنگے داموں فروخت میں پس پردہ کئی با اثر افراد بھی ملوث ہیں۔ وزیر اعلی سندھ ، مراد علی شاہ ، سینئر وزیر ، شرجیل انعام میمن اور آئی جی کے اعلانات کے باوجود ٹینکرز کا بغیر کسی فٹنس کے سڑکوں پر دندناتے پھرنا اس کا واضع ثبوت ہے۔
واضح رہے کہ واٹر بورٖڈ ایپ کے ذریعہ 1000 گیلن پانی کی کل قیمت 2501.92 روپے ہے جس میں واٹر چارجز1560 روپے ہیں اور ڈیلیوری چارجز فاصلے کے مطابق چارج کیے جاتے ہیں جو عام طور پر 941 روپے وصول کیے جاتے ہیں، تاہم اس سہولت سے بہت کم افراد ہی مستفید ہو پاتے ہیں۔
جن علاقوں میں پانی کی قلت ہے یا جو پانی سے بالکل محروم ہیں ان میں با اثر افراد نے منافع بخش جانتے ہوئے باقاعدہ پانی کا کاروبار شروع کر رکھا ہے۔ ان افراد نے گھروں کے اندر بڑے انڈر گراونڈ اسٹوریج ٹینک بنا رکھے ہیں جن میں ٹرالرز کے ذریعہ 12 ہزار گیلن سے 50 ہزار گیلن پانی اسٹو ر کیا جاتا ہے اور پھر یہاں سے 1000 سے 4000 ہزار گیلن کے ٹینکرز کے ذریعہ پانی کی قلت کے شکار علاقوں میں شہریوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔

شدید گرمیوں میں جب پانی کا استعمال اور قلت میں اضافہ ہوتا ہے تو ٹینکرز مافیا 1000 گیلن پانی کا ٹینکر 4000 روپے سے 6000 روپے تک فروخت کرتی ہے جبکہ حالیہ شدید قلت کے وقت یہ ہی ٹینکر 10000 روپے تک بھی فروخت کیے جا رہے ہیں۔
یہ سارا مکروہ دھندہ سندھ سرکار اور واٹر بورڈ کی ناک کے نیچے بغیر کسی قانونی قاعدے اور ضابطے کے جاری ہے۔ مصنوعی قلت اور پانی کی ڈیمانڈ کے باعث یہ کاروبار منافع خوروں کے لیے اس حد تک پر کشش بن گیا ہے کہ جو افراد ٹینکر نہیں خرید سکتے وہ سوزوکی اور لوڈر رکشوں کے پیچھے چھوٹے سائز کی ٹینکیاں بنا کر پانی بیچ رہے ہیں۔ جس سے یہ بات واضح ہے کہ شہر میں کبھی پاور بریک ڈاون اور کبھی لائنز کی لیکیج کے بہانے پانی کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق صرف پانچ ماہ میں واٹر کارپوریشن کی بڑی تنصیبات میں خرابی کے آدھے درجن سے زائد بڑے واقعات ہوچکے ہیں، جبکہ پانی کی لائنوں کے رسائو کے دیگر چھوٹے واقعات ان گنت ہیں جن کو بہانہ بنا کر کسی بھی علاقے کا پانی منقطع کر دیا جاتا ہے اور واٹر ٹینکرز کو کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔