رپورٹ مسعود انور
امریکی صدر ٹرمپ کے سخت امیگریشن اقدامات کے منفی اثرات دو ماہ میں ہی امریکا پر نظر آنے لگے ہیں۔ امریکی صدر کی ہدایت پر امریکی بارڈر سیکوریٹی فورس نے ایئرپورٹ اور سرحدی چوکیوں پر انتہائی سختی شروع کردی ہے اور تیسری دنیا اور خاص طور سے لاطینی امریکا کے ممالک کے باشندوں کے ساتھ شدید سختی ، انہیں حراست میں لینے کے ساتھ ساتھ یورپی اور مغربی ممالک کے سیاحوں کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔
امریکا کے اس رویہ کے بعد سے ان ممالک میں اب امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہا ہے اور ان ممالک کے باشندوں نے اب امریکا کا رخ کرنے کے بجائے دیگر ممالک کا رخ کرنا شروع کردیا ہے۔ خاص طور سے کینیڈا کے شہریوں نے امریکا کو اپنی سیاحتی فہرست سے نکال دیا ہے اور اب انہوں نے یورپی ممالک کا رخ کرلیا ہے، جبکہ یورپی ممالک نے بھی اب امریکا کے بجائے کینیڈا کے لیے رخت سفر باندھنا شروع کردیا ہے۔

اس وقت امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز کی جانب سے کینیڈا اور یورپ کے باشندوں کو حراست میں لینا معمول بن گیا ہے۔ برطانوی اخبار گارجین نے اپنی 19 مارچ کی ایک رپورٹ میں کینیڈا کی ایک خاتون شہری کی رپورٹ شائع کی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ خاتون کو یہ کہہ کر کہ اس کا ورک ویزا درست طریقے سے نہیں لیا گیا تھا ، اسے ایک مجرم کی طرح گرفتار کیا گیا اور دو ہفتے تک ایک سرد جیل میں اس طرح رکھا گیا کہ دو دن تک اسے اپنے وکیل سے بھی رابطہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بعد ازاں دو ہفتے بعد اسے بلاکسی عدالتی کارروائی کے آزاد کردیا گیا۔

گارجین کی اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح سے ایک بھارتی طالبہ کو امریکا میں داخلے کے وقت امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز نے گرفتار کرلیا جب وہ دوبارہ بھارت سے امریکا پہنچی ۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے گزشتہ مرتبہ بھارت جاتے ہوئے تین دن ویزے کی مدت سے زائد قیام کیا تھا۔ گارجین کی اسی رپورٹ میں اس طرح کے مزید واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ امریکا کے امیگریشن افسران کی جانب سے اس طرح حراست میں لینے کے واقعات کے بعد اس کا امریکا آنے کے خواہشمند افراد پر منفی اثر پڑا ہے اور برطانیہ ، فن لینڈ ، کینیڈا ، آسٹریلیا ، جرمنی اور دیگر ممالک نے امریکا جانے والے اپنے شہریوں کے لیے ٹریول ایڈوائزری جاری کی ہے جس میں اپنے شہریوں کو امریکی امیگریشن افسران کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکا آنے والے افراد میں روز بہ روز کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔

خبررساں ایجنسی رائٹر نے اپنی 24 مارچ کی ایک خبر میں بتایا ہے کہ یورپی سیاحوں نے اب امریکا کے بجائے دیگر ممالک کا رخ کرنا شروع کردیا ہے۔ رائٹر کے مطابق یورپی سیاح ہر برس امریکا میں 155 ارب ڈالر خرچ کرتے تھے ۔ رائٹر کے مطابق یورپی سیاحوں سے صرف امریکی حکومت کو ہی فائدہ نہیں تھا بلکہ برٹش ایئرویز جیسی ایئر لائنز بھی منافع بخش کاروبار کررہی تھیں۔ گزشتہ فروری میں سب سے زیادہ کمی سلوانیا سے 26 فیصد رہی۔ اس کے بعد سوئٹزرلینڈ اور بیلجیئم سے آنے والے سیاحوں میں بڑی کمی ریکارڈ کی گئی۔

رائٹر نے اپنی خبر میں بتایا ہے کہ اسے یورپی ٹریول ایجنٹوں نے بتایا ہے کہ سیاحوں کی امریکا میں دلچسپی نہ ہونے کے سبب اب انہوں نے اپنے کسٹمرز کو دیگر متبادل سیاحتی مقامات سے آگاہ کرنا شروع کردیا ہے۔ ٹورزم ڈیٹا فراہم کرنے والی کمپنی ڈیٹا اپیل کمپنی کے سی ای او مرکو لالی نے رائٹر کو بتایا کہ امریکا کے لیے فلائٹس کی تلاش فرانس، اٹلی اور اسپین میں بری طرح کم ہوئی ہے جبکہ برطانیہ میں معمول کے مطابق ہے۔
جرمن ٹریول ایجنسی امریکا ان لمیٹڈ نے رائٹر کو بتایا کہ جرمن خصوصی طور پر کینیڈا کو اپنے متبادل سیاحتی مقام کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ امریکا ان لمیٹڈ کے سی ای او ٹیمو کولن برگ کے مطابق اس وقت کینیڈا کے لیے یورپی سیاحوں کی جانب سے سیاحتی بکنگ عروج پر ہے ۔ بالکل یہی صورتحال یورپ میں کینیڈا کے سیاحوں کی ہے ۔ یورپ میں کینیڈین شہریوں کی جانب سے جون تا اگست اس برس 32 فیصد زاید بکنگ دیکھی گئی ہے ۔


