پاکستان کا شمار تپ دق سے سب سے زیادہ متاثرہ 5 ممالک میں ہوتا ہے، ملک میں سالانہ ہر ایک لاکھ میں سے 277 افراد یعنی مجموعی طور پر 6 لاکھ 86 ہزار افراد ٹی بی کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے 4لاکھ 94 ہزار 603 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جبکہ 30 فیصد یعنی ایک لاکھ 91 ہزار 397 مریض ایسے ہیں جن میں ٹی بی کی تشخیص نہیں ہوپاتی۔
ٹی بی (تپ دق) کے عالمی دن کے موقع پر اوجھا انسٹی ٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز (او آئی سی ڈی) میں سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی ) سندھ کے اشتراک سے آگہی واک منعقد کی گئی۔ اس موقع پر او آئی سی ڈی کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد نے بتایا کہ پاکستان میں ٹی بی سے سالانہ 48 ہزار 500 اموات ہوتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سندھ میں سالانہ ایک لاکھ 54 ہزار 278 افراد ٹی بی کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ 19 ہزار 741 کیسز رجسٹر ہوتے ہیں اور 34 ہزار سے زائد یا 30 فیصد مریض ایسے ہیں جن میں ٹی بی کی تشخیص نہیں ہوپاتی۔
او آئی سی ڈی کے ڈائریکٹر نے مزید بتایا کہ ایک بی پازیٹو پلمونری مریض ایک سال میں 10سے 15 افراد کو ٹی بی کا مرض منتقل کرتا ہے۔ ٹی بی کی تشخیص اسپیوٹم مائیکرواسکوپی، ایکسپرٹ ایم ٹی بی رف ایسے اور چیسٹ ایکسرے کے ذریعے کی جاتی ہے اور اس مرض کے علاج کا دورانیہ 6 ماہ ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد نے بتایا کہ سندھ میں ٹی بی کے علاج کے لیے 455 ٹی بی کلینیکس اور پرسنلائزڈ دائمی علاج (کرونک کیئر) کے لیے 16 پروگرامیٹک مینیجمنٹ آف ڈرگ ریزسٹنٹ ٹی بی(پی ایم ڈی ٹیز) ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اوجھا انسٹی ٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز میں 4 ٹی بی کلینیکس، 2 پی ایم ڈی ٹیز، ٹی بی وارڈ، ٹی بی آئی سی یو، تھوریسک سرجری اور ایم ڈی آر انڈور کیئر کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔