By using this site, you agree to the Privacy Policy and Terms of Use.
Accept
Karachi PaperKarachi PaperKarachi Paper
  • پہلا صفحہ
  • بینک
  • آئی پی پیز
  • عدالتیں
  • صحت
  • تعلیم
  • پاکستان
  • دنیا
  • بلدیہ
  • ایوی ایشن
  • ایف بی آر
  • این جی اوز
  • اسکالرشپ
  • فلسطین/اسرائیلنیا
  • مڈل ایسٹنیا
  • English
Karachi PaperKarachi Paper
تلاش کریں
  • پہلا صفحہ
  • بینک
  • آئی پی پیز
  • عدالتیں
  • صحت
  • تعلیم
  • پاکستان
  • دنیا
  • بلدیہ
  • ایوی ایشن
  • ایف بی آر
  • این جی اوز
  • اسکالرشپ
  • فلسطین/اسرائیلنیا
  • مڈل ایسٹنیا
  • English
Follow US
© 2022 Foxiz News Network. Ruby Design Company. All Rights Reserved.
دنیا

وائس آف امریکا کی بندش : امریکا میں ایک نیا منظر نامہ حصہ دوم و آخر

مسعود انور
آخری بار اپ ڈیٹ: مارچ 22, 2025 2:06 صبح
مصنف
مسعود انور
8 مہینے پہلے
Share
11 منٹ پڑھیں
voa logo
SHARE

نہ تو ٹرمپ پاگل ہے اور نہ ہی بین الاقوامی کھلاڑی احمق ہیں کہ وہ سی آئی اے کو ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بے دست و پا کررہے ہیں ۔ دنیا بھر میں جنگی ساز و سامان بنانے والی کمپنیوں کی دال روٹی ہی جنگوں سے چل رہی تھی ۔ اگر دنیا بھر میں امن قایم ہوجائے تو پھر کھربوں ڈالر کی یہ صنعت محض کاٹھ کباڑ ہی ثابت ہوگی ۔ اس لیے ان کمپنیوں کے مالکان کی ہمیشہ سے یہ کامیاب کوشش رہی ہے کہ دنیا بھر میں کہیں نہ کہیں جنگ جاری رہے ۔ چاہے وہ کہیں کسی ریاست کے خلاف بغاوت کی صورت میں ہو یا باقاعدہ کسی ملک پر حملہ ۔ ان کا سامان بکے گا تو انہیں پیسہ ملے گا۔ مثال کے طور پر پاکستان کو ہی لیتےہیں ۔ یہاں پر اس وقت دو جنگی تھیٹر active ہیں ۔ ایک خیبر پختون خوا میں اور دوسرا بلوچستان میں ۔ ان دونوں صوبوں میں جنگجوؤں کے پاس جنگی ساز و سامان کی کوئی کمی نہیں۔ ایک تو قلت نہیں ہے دوسرے ان کےپاس جدید ترین ساز و سامان ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان جنگجوؤں کے پاس یہ ہلکا و بھاری اسلحہ ، ایمونیشن اور دیگر حربی سامان پہنچانے کے لیے کسی نے تو ادائیگی کی ہوگی ۔ ابھی ہم اس بحث میں نہیں ہیں کہ پس پردہ یہ قوت کون ہے جو یہ حربی سامان ان جنگجوؤں کو فراہم کررہی ہے ۔ یہ چاہے بھارت ہو ، ایران ہو ، امریکا یا چین ۔ کوئی تو ہے جو یہ کام کررہا ہے ۔ جو بھی یہ کام کررہا ہے، وہ اپنے عوام کا پیٹ کاٹ کر ، اس کے ٹیکس کےپیسوں سے یہ کام کررہا ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کے لیے اُس ملک کے پاس طویل المدت منصو بے ہوں گے۔ جیسا کہ کہا جاتاہے کہ جوں جوں 80 کی دہائی میں کراچی تباہ ہوتا گیا ، توں توں دبئی ترقی کی سیڑھی پر چڑھتا گیا ۔

جس کا جو بھی منصوبہ ہو ، کہیں پر بھی ہو، حربی سامان بنانے والی کمپنی کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ اس کا مقصد محض چند سو روپے کلو کا لوہا لاکھوں اور بعض اوقات کروڑوں روپے میں بیچنا ہوتا ہے ۔ حربی سامان بنانے والی کمپنیوں کا یہ کھیل اب تک کامیابی سے چل رہا ہے۔ اب ان کمپنیوں کےمالکان نے اپنی اسٹراٹیجی تبدیل کی ہے ۔ نئی حکمت عملی اب cartelization کی ہے ۔ پہلے دنیا کو دو سپر پاورز کے درمیان تقسیم کیا گیا تاکہ یہ کمپنیاں سیکورٹی کی آڑ میں ان ممالک کے گروہ میں موجود تیسری دنیا کی دولت کو حربی سامان کی فروخت کی صورت میں ہڑپ کر سکیں ۔ گاہے بگاہے ایک دوسرے کے گروہ میں موجود تیسری دنیا کے ممالک کو جنگی میدان میں بھی تبدیل کیا گیا ۔ مگر یاد رہے کہ ان نام نہاد سپر قوتوں نے اس امر کا التزام کے ساتھ خیال رکھا کہ ایک دوسرے کو براہ راست کبھی کوئی گزند نہ پہنچے ۔ ہمیشہ قتل عام مہمانوں کا ہی کیا گیا ۔

نئی حکمت عملی میں اب امریکا اور روس دو حریف ریاستیں نہیں ہیں بلکہ حلیف ہیں ۔ اب یہ دنیا کی اسی طرح میز پر کیک کی تقسیم کرنے کے لیے colonization کررہی ہیں جس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد کیا گیا تھا ۔ اب پھر سے میز پر بیٹھ کر نئے نقشے بنائے جائیں گے ، یہ علاقہ تیرا اور یہ میرا ۔

اس کی ایک جھلک ٹرمپ کے اولین بیانات میں ہی دیکھ لیں ۔ گرین لینڈ ، کینیڈا ، یوکرین سب ہمارے قبضے میں ۔ ان کا اسٹیٹس اب اتحادی کا نہیں رہا بلکہ اب یہ ہماری کالونی ہیں ۔ کہا جارہا ہے کہ یہ سب تو امریکیوں کے مفاد میں ہوا ۔ نہیں ، یہ امریکی شہریوں کے مفاد میں بالکل اسی طرح نہیں ہے جس طرح بوئنگ ، لاک ہیڈ اور دیگر فوجی ساز و سامان بنانے والی کمپنیوں کی مصنوعات کی فروخت سے امریکی معیشت کو براہ راست کوئی فایدہ نہیں پہنچتا ۔ یہ ساری کمپنیاں آف شور کمپنیوں کے طور پر کے مین آئی لینڈز یا ایسےہی کسی اور جزیرے پر رجسٹرڈ ہیں ۔ کسی کو دستاویزی طور پر ان کمپنیوں کے اصل مالکان کا نہیں پتا ۔ یہ نہ امریکا کو کوئی ٹیکس دیتی ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا معاشی فایدہ ان سے امریکا کو ہے ۔ سوائے ملازمین کو ملنے والی تنخواہ پر انکم ٹیکس کے یا برآمدات پر سیلز ٹیکس کے ۔ ایسے ہی اب نئی کالونیوں کے وسائل سے لطف اندوز ملٹی نیشنل کمپنیاں ہی ہوں گی جن میں ٹرمپ اور اس کے چالیس چور بھی شامل ہیں ۔ دوسری جانب یہی صورتحال پیوٹن اور اس کے چالیس چوروں کی ہے ۔ یاد رکھیں برصغیر پر قبضہ تاج برطانیہ نے نہیں ، ایک ملٹی نیشنل کمپنی ایسٹ انڈیا کمپنی نے کیا تھا ۔

تو جناب ، نئی صورتحال یہ بنی کہ دنیا پر قبضے کا موجودہ ماڈل پرانا ہوگیا ۔ اسے اب متروک کرکےدنیا میں نیا ماڈل متعارف کروایا جارہا ہے جو حریف کےبجائے حلیف سپر قوتوں کے تصور پر مبنی ہے ۔ یہاں پر ایک سوال اور ذہن میں ابھرتا ہے کہ جب یہ پراکسی وار کی حکمت عملی ختم کردی گئی ہے تو پھر پاکستان سے بھی مسلح جنگجوؤں کی مالی و حربی معاونت ختم کردینی چاہیے ۔

یہاں پر یہ بات سمجھنے کی ہے کہ پاکستان کے معاملات کبھی سی آئی اے نے براہ راست نہیں دیکھے ۔ سی آئی اے نے ایک مفاہمت کے تحت پاکستان کے معاملات برطانوی ایجنسی MI 6 کے حوالے کررکھے ہیں ۔ دوسرے پاکستان میں بے چینی سےدلچسپی دور پار کے ممالک سے زیادہ اس کےاپنے پڑوسیوں کو ہیں جو گدھ کے طور پر اپنا اپنا حصہ لینے کے منتظر ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان کی مدد کےلیےایک میر جعفر نہیں بلکہ میر جعفروں کی پوری ٹیم موجود ہے ۔ ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے۔ چین نے منگولوں کے حملے سے بچاؤ کے لیے دیوار چین تعمیر کی تھی ۔ اس کی تعمیر کے سو سال کےاندر اندر منگولوں نے تین مرتبہ چینی سرزمین کو تاخت و تاراج کیا ۔ منگولوں نے ان تینوں حملوں میں ایک مرتبہ بھی دیوار نہ تو پار کی اور نہ ہی اس میں نقب لگایا بلکہ ہر دفعہ ان کے لیے دروازہ کھولا گیا ۔ سو اگر پاکستان میں بھی دیوار چین کا دروازہ کھولنے والے نہ ہوتےتو خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں بھی ان عناصر کی وہ شدت نہ ہوتی جو ہے اور ان کی سرکوبی بھی کب کی کردی گئی ہوتی ۔

تو اب بات سمجھ میں آتی ہے کہ ٹرمپ کیوں تیزی سے سی آئی اے کو محدود کرنے کے اقدامات کررہا ہے اور کیوں اپنے ہی بے بی ناٹو کو عملی طور پر موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے اس سے خود نکلنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے ۔ ایک بات اور دیکھیں کہ امریکا میں امیگریشن کے نام پر روز ایک نئی پابندی لگائی جارہی ہے ۔ تیسری دنیا کے ممالک کو چھوڑیں ، یورپی ممالک سے امریکا آنے والوں کو بھی دستاویزات نامکمل ہونے کے نام پر ائرپورٹ پر بارڈر سیکوریٹی فورس حراست میں لے کر ڈی پورٹ کر رہی ہے ۔ برطانیہ اور جرمنی نے کل ہی امریکا جانے والے اپنے باشندوں کے لیے ٹریول ایڈوائزری جاری کی ہے۔ ایک بات پر اور غور کیجیے گا کہ امریکا بھارت اور یورپ سمیت سارے ہی ممالک کےباشندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کررہا ہے مگر اس نے چینیوں اور روسیوں کے خلاف منہ سے بھاپ بھی نہیں نکالی ہے ۔

اس وقت امریکا میں شدید خوف کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے ۔ تارکین وطن کو ڈی پورٹ کرنے ، ان کے گرین کارڈ کی منسوخی ، حتیٰ کہ پاسپورٹ کی منسوخی کا خوف ہے تو پیدائشی امریکیوں کو زنداں کا خوف ڈال دیا گیا ہے ۔ جو آواز بلند کرے ، اس کے خلاف فوری کارروائی ۔ یہی پالیسی ہے اور اس پالیسی میں کوئی امتیاز کوئی تخصیص نہیں ہے ۔ اس کے نتیجے میں امریکا میں ایک آہنی ہاتھ وجود میں لایا گیا ہے جو نئی پالیسی کے خلاف ہر آواز کو کچل رہا ہے ۔

اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کےقیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔
hellomasood@gmail.com

اس آرٹیکل کو شیئر کریں
Facebook Email Print
پچھلا مضمون CAA 1 پارا چنار ایئرپورٹ کی بحالی، پی اے اے اور پی آئی اے سی ایل کی مشترکہ ٹیم کا دورہ
اگلا مضمون warning 1 برطانیہ نے امریکا سفر کرنے والے شہریوں کے لیے وارننگ جاری کر دی

ایڈیٹر کا انتخاب

ٹاپ رائٹرز

مسعود انور 15 Articles

رائے

How Can I Work in Canada Without an LMIA 1

کینیڈا میں نوکری حاصل کرنا آسان، 2025 میں بغیر ایل ایم آئی اے ویزا حاصل کریں

کینیڈا جانے کے خواہشمند افراد اب 2025  میں انٹرنیشنل موبیلیٹی…

11 مہینے پہلے

اسرائیلی قید سے رہائی کے بعد جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد آج وطن پہنچیں گے

اسرائیلی فوج کی قید سے رہائی…

1 مہینہ پہلے

پاکستان کوسٹ کی منشیات اسمگلنگ  کے خلاف  کارروائیاں، 136.528 ملین ڈالر  مالیت کی منشیات ضبط          

پاکستان کوسٹ گارڈز  کے ترجمان کے…

1 مہینہ پہلے

اسرائیل نے نے غزہ امداد لے جانے والا ایک اور فلوٹیلا روک لیا

غیر ملکی خبر رساں اداروں کے…

1 مہینہ پہلے

اسرائیلی قید سے رہائی کے بعد مشتاق احمد خان کا پہلا ویڈیو پیغام

مشتاق احمد خان کے آفیشل فیس…

1 مہینہ پہلے
Karachi PaperKarachi Paper
Follow US
2025 Karachi Papers Network. All Rights Reserved ©
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?