امریکی صدر مسٹر ٹرمپ نے 14 مارچ 2025 کو ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے وائس آف امریکا کے تمام فنڈز روک کر اس ادارے کو عملی طور پر بند کرنے کے احکامات جاری کردیے ۔ اس ادارے کے 13 سو سے زاید مستقل ملازمین جن میں صحافی، پروڈیوسر اور معاونین شامل تھے ، کو انتظامی چھٹیوں پر بھیج دیا گیا ہے جبکہ ہزاروں کنٹریکٹ ملازمین کو کچھ علم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا ۔ اس وقت وائس آف امریکا اپنے ٹاک شوز اور خبروں کی جگہ پر میوزک براڈ کاسٹ کررہا ہے ۔
جیسے ہی وائس آف امریکا کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ، صحافت کی دنیا میں صف ماتم بچھ گئی اور اسے آزادی صحافت کے لیے ایک عظیم نقصان قرار دیا گیا ۔ پاکستان میں بھی صحافیوں نے اس پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ۔ کسی نے کہا کہ یہ آزادی صحافت پر حملہ ہے ، کسی نے اسے آزادی اظہار رائے کوکنٹرول کرنے کی کوشش قرار دیا تو کسی نے کہا کہ ٹرمپ امریکا میں اپنی مخالفت میں ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرنا چاہتا ۔ کسی نے کہا کہ وائس آف امریکا پر بائیں بازو کی فکر والوں قبضہ ہے ، اس لیے ٹرمپ نے اس آرگن کو ہی خاموش کردیا کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری ۔
کیا ایسا ہی ہے ۔ معاملات کو سمجھنے کے لیے پہلے ہم وائس آف امریکا کی آرگنائزیشن کو سمجھتے ہیں ۔ اس سے اس کی بندش کے فیصلے پر رائے قائم کرنے میں آسانی رہے گی ۔ وائس آف امریکا کو جنگ عظیم دوم میں ایک پروپیگنڈہ مشین کے طور پر عمل میں لایا گیا تھا ۔ جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد سرد جنگ کے زمانے میں ا س میں مسلسل پھیلاؤ کا عمل جاری رہا۔ اپنے قیام سے لے کر بند ہونے تک ایک دن بھی وائس آف امریکا کی نشریات امریکا میں نہیں سنی گئیں کہ یہ بنایا گیا ہی دشمن ممالک میں پروپیگنڈے کے لیے تھا اور اس کی نشریات پر امریکا میں پابندی تھی ۔ ابتدا میں اس کے پروگرام صرف براڈکاسٹ ہوتے تھے بعد ازاں اس کے پروگرام ٹیلی کاسٹ بھی کیے جانے لگے ۔ اس کی نشریات 48 زبانوں میں براڈ کاسٹ اور ٹیلی کاسٹ کی جاتی تھیں ۔ اس ادارے کے پیرنٹ ادارے کے کئی نام رہے تاہم آخری نام US Agency for Global Media (USAGM) تھا ۔ یہ ادارہ صرف وائس آف امریکا ہی نہیں چلاتا تھا بلکہ اس کے تحت اور بھی پروپیگنڈہ مشینیں چل رہی تھیں جن میں Radio Free Europe ، Radio Liberty، Office of Cuba Broadcasting (Radio and TV Marti) ، Radio Free Asia ، Middle East Broadcasting Networks ( AL Hurra TV and Radio Sawa) اور Open Technology Funds شامل ہیں ۔
پہلے دن سے آخری دن تک اس کے بورڈ آف گورنرز کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ ادارہ سی آئی اے کا براہ راست tool تھا ۔ اس سے سی آئی اے دو طرفہ فواید حاصل کرتا تھا ۔ ایک تو مطلوبہ علاقوں میں اس کی پروپیگنڈہ مشین کام کررہی تھی اور یہ ذہن سازی کا کام کررہا تھا ۔ دوسرے یہ مطلوبہ علاقوں میں چند ڈالروں کے عوض صحافیوں کو بھرتی کرکے ان سے مطلوبہ معلومات بہ آسانی حاصل کرتا تھا ۔ وائس آف امریکا کے بھرتی کردہ صحافی اُس کے لیے جو خدمات سرانجام دے رہے تھے ، وہ تو سی آئی اے کے اپنے ایجنٹ بھی نہیں کرسکتے تھے ۔ یہ سب کچھ میں گمان کے طور پر نہیں کہہ رہا ہوں ۔ یہ سب امریکی سینیٹ کے ریکارڈ پر موجود ہے ۔ سی آئی اے وائس آف امریکا کے اسٹرکچر کے بارے میں کتنی حساس تھی ، اسے ایک واقعہ سے سمجھا جا سکتا ہے ۔
وائس آف امریکا دنیا بھر میں اپنی نشریات کو ٹیلی کاسٹ کرنے کے لیے چینل قایم کرنے کے بجائے مختلف چینلوں کے ائر ٹائم خریدا کرتا تھا جبکہ براڈ کاسٹ کے لیے سیٹلائٹ اور بوسٹر استعمال کرتا تھا ۔ پاکستان میں بھی اس نے یہی کیا ۔ پاکستان کے تمام معروف ٹی وی چینل ڈالر ملنے کی خوشی میں یہ سب کچھ خوشی خوشی کرتے تھے ۔ جیو کا جب وائس آف امریکا سے نشریات ٹیلی کاسٹ کرنے کا معاہدہ ہوا توجیو کے مالک میر شکیل الرحمٰن نے اس کا پرومو تیار کرنے کے احکامات جاری کردیے ۔ جن صاحب کو یہ احکامات جاری کیے گئے انہوں نے اس کے لیے مواد کی تلاش میں اس کے بارے میں پڑھنا شروع کیا ۔ ایک کے بعد ایک فائل کھلتی چلی گئی اور وہ اس کے بارے میں سینیٹ کی کارروائی تک پہنچ گئے ۔ جو صاحب یہ کررہے تھے ، انہوں نے مجھے بتایا کہ دوسرے دن ان کی ڈیسک کا فون بجا ۔ بات کرنے والے نے بتایا کہ وہ واشنگٹن سے بات کررہا ہے اور سی آئی اے کا افسر ہے ۔ اس نے سوال کیا کہ تم اس ویب سائٹ پر کیا کررہے ہو ۔ میرے دوست کا کہنا ہے کہ ایک لمحے کو تو وہ خوفزدہ ہی ہوگیا کہ انہیں یہ تک ایک دن میں معلوم ہوچکا تھا کہ کون اس ویب سائٹ پر ان کے بارے میں پڑھ رہا ہے ۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے فوری طور پر میر شکیل الرحمٰن کو فون کرکے صورتحال سے آگاہ کیا ۔دوسرے دن میر شکیل الرحمٰن نے اسے کہا کہ بات ہوگئی ہےاور وہ اپنا کام جاری رکھ سکتا ہے۔
اس مختصر تعارف کے بعد ہم جان چکے ہیں کہ وائس آف امریکا کہیں سے بھی صحافت نہیں کر رہا تھا اور نہ ہی اس کا کوئی تعلق امریکا میں رائے سازی سے تھا کہ اس کی نشریات امریکا میں نہ تو دیکھی جاسکتی تھیں اور نہ ہی سنی جاسکتی تھیں ۔ ایک بات اور ہم جان گئے ہیں کہ یہ سی آئی اے کے تحت چلنے والا ایک ادارہ تھا ۔ اب اصل سوال کی طرف آتے ہیں کہ اسے بند کیوں کیا گیا ۔
اس کے جواب میں کہا جارہا ہے کہ مسٹر ٹرمپ امریکی اخراجات میں کٹوتی چاہتے ہیں ۔ اس کے لیے وہ تمام غیر ضروری اخراجات ختم کررہے ہیں ۔
وائس آف امریکا پر مزید گفتگو سے قبل پہلے چند خبریں دیکھتے ہیں ۔ یہ 13 فروری 2025 کی خبر ہے جو خبر رساں ایجنسی رائٹر نے 14 فروری کو جاری کی ۔ اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکی سفارتخانوں کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنی افرادی قوت میں قابل ذکر کمی کے لیے تیار رہیں ۔ اسی خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مسٹر ٹرمپ نے فوری طور پر State Department’s Bureau of Democracy, Human Rights and Labor کے 60 کنٹریکٹروں کو فارغ کردیا ہے ۔ سفارتخانوں اور قونصلیٹ سے جن افسران کی چھانٹی کا حکم دیا گیا تھا ، ان میں ویزا افسران کی چھانٹی اہم ترین تھی ۔ ساتھ ہی Foreign Affairs Manual (FAM) میں بھی ضروری تبدیلی اور نظر ثانی کے احکامات جاری کردیے گئے ۔ FAM کے تحت ہی ویزا افسران کو لامحدود اختیارات حاصل تھے کہ وہ امریکی سفیر کے احکامات ماننے سے بھی انکار کرسکتے تھے ۔ اگلے دن ہی مسٹر ٹرمپ نے یورپ سمیت مختلف ممالک میں درجن بھر سے زاید قونصل خانے بند کرنے کا حکم جاری کردیا ۔
رائٹر ہی کی خبر کے مطابق واشنگٹن میں موجود متعدد بیوروز جن میں انسانی حقوق، مہاجرین ، عالمی مجرمانہ انصاف ، حقوق نسواں اور دیگر کو ختم کرنے یا ایک دوسرے میں ضم کرنے کے بارے میں بھی کام کیا جا رہا ہے ۔ اس سے قبل 6 فروری کو ٹرمپ نے سی آئی اے سے اس کے تمام اسٹاف اور افسران کی فہرست طلب کی تھی ۔ جس کے بعد بڑے پیمانے پر سی آئی اے کے افسران اور اسٹاف کو سی آئی اے سے نکال کر دیگر اداروں میں پوسٹنگ کردی گئی تھی ۔ یو ایس ایڈ کا ادارہ بھی بند کردیا گیا ہے ۔
اب ان خبروں کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ واشنگٹن میں جن 60 کنٹریکٹروں کو فارغ کیا گیا تھا یہ 60 افراد نہیں بلکہ 60 ٹیموں کے لیڈر تھے ۔ یہ کھلا راز ہے کہ امریکی ویزا افسران ، کمرشیل قونصلرز اور کئی دیگر افسران سارے کے سارے ہی سی آئی اے سے آتے تھے ۔ اسی طرح حقوق نسواں ، انسانی حقوق ، یو ایس ایڈ وغیرہ وغیرہ جیسے ادارے بھی سی آئی اے کے tools تھے ۔ ان خبروں سے ہم ایک نتیجہ باآسانی نکال سکتے ہیں کہ ٹرمپ سی آئی اے کو مختصر کررہا ہے ۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس کے دانت اور پنجے نکال رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وائس آف امریکا کو بھی بند کردیا گیا ہے ۔ اس نتیجے کے بعد اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ٹرمپ پاگل ہوگیا ہے کیا کہ اپنی فرنٹ لائن آرمی سی آئی اے کا اپنے ہی ہاتھوں گلا گھونٹ رہا ہے ۔ کیا وہ غدار ہے ۔
اس اہم سوال پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔
hellomasood@gmail.com