میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
یہ شعر مشہور شاعر مصطفےٰ زیدی کا ہے ۔ مصطفےٰ زیدی کی موت ان کے اس شعر کے عین مطابق ہی تھی ۔ ایسا لگتاہے کہ انہیں اپنی موت کے بارے میں الہام ہوا تھا ۔ مصطفےٰ زیدی بنیادی طور پر ایک فلرٹ کرنے والی شخصیت تھے ۔ ان کے عاشقانہ اسکینڈلز میں الہٰ باد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی بیٹی سروج بالا سرن کے ساتھ عشق بھی شامل تھا اور اس اسکینڈل کے نتیجے میں انہیں اپنا آبائی شہر الہٰ باد چھوڑنا پڑا ۔ اسلامیہ کالج پشاور میں لیکچرر شپ کے دوران ان کا ایک امریکی کولیگ کے ساتھ اسکینڈل مشہور ہوا جس کے بعد انہیں اسلامیہ کالج پشاور چھوڑنا پڑا ۔ انگلستان قیام کے دوران ان کے معاملات ایک جرمن دوشیزہ ویرا فان سے چل پڑے جس سے انہوں نے شادی کرلی ۔ میں مصطفےٰ زیدی پر کوئی مضمون نہیں تحریر کررہا ہوں ۔ اس تمہید سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مصطفےٰ زیدی ایک عاشق مزاج شاعر تھے جو کسی بھی خاتون پر کہیں بھی عاشق ہوسکتے تھے۔ وہ بیوروکریٹ بھی تھے جنہیں یحییٰ خان نے 1969 میں ملازمت سے برطرف کردیا تھا ۔ دیگر خواتین کے ساتھ ساتھ ان کے کراچی میں ایک کنٹریکٹر کی کمسن خوبرو بیوی شہناز گُل سے بھی تعلقات تھے ۔ کراچی میں قیام کے دوران وہ اپنے ہوٹل کے کمرے میں 12 اکتوبر 1970 کو پراسرار طور پر مردہ پائے گئے ۔ ان کے ساتھ ان کی محبوبہ شہناز گُل بھی موجود تھیں جو بے ہوشی کی حالت میں تھیں ۔
یہ ایک سیدھا سادا سا کیس تھا کہ ایک برطرف شدہ بیوروکریٹ جو کہ شاعر بھی ہے ، وہ اپنے کمرے میں مردہ پایا گیا اور اس کی محبوبہ بے ہوشی کی حالت میں تھی ۔ یہ پولیس کا کام تھا کہ وہ شواہد اکٹھے کرتی اور مجرم کو گرفتار کرکے اسے کیفر کردار تک پہنچاتی ۔ مگر ہوا کیا ؟ دیکھتے ہی دیکھتے اسے ایک ہائی پروفائل کیس میں تبدیل کردیا گیا ۔ اُس زمانے کے سارے اخبارات اسی ایک خبر کے بارے میں مہینوں تک تفصیل سے بھرے ہوتے ۔ شہناز گُل کو سوسائٹی گرل کا خطاب دے دیا گیا ۔ اور یوں پوری پاکستانی عوام کو ایک چسکے کے پیچھے لگا دیا گیا ۔ آپ مصطفےٰ زیدی کے مرنے کی تاریخ 12 اکتوبر 1970 پر دوبارہ سے غور کریں ۔ یہ وہ وقت تھا جب مشرقی پاکستان کے معاملات No return point کی طرف جارہے تھے مگر مغربی پاکستان کی عوام شہناز گل کے حسن کے سحر میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ روز کوئی ایک بقراط اس کے حوالے سے ایک نیا پہلو سامنے آتا اور مغربی پاکستان کے عوام چوک اور چوباروں پر اسی موضوع پر مزے لیتے نظر آتے ۔ یہ کیس اس وقت تک مہینوں اخبارات پر چھایا رہا جب تک مطلوب تھا ۔ پھر اچانک کہیں وقت کی گرد میں گمُ ہوگیا اور کسی کو پتا نہیں چلا کہ شہناز گُل کہاں گئیں اور مصطفےٰ زیدی کا قاتل کون تھا ۔
وقت کی گرد میں سے ایک اور کیس کو دیکھتے ہیں ۔ یہ 15 اگست 2013 کی بات ہے کہ ایک شخص ملک محمد سکندر اسلام آباد بلیو ایریا میں جناح ایونیو پر ایوان صدر اور پارلیمنٹ ہاؤس سے محض ایک کلومیٹرکے فاصلے پر اپنی گاڑی سے اترا ، اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھی ۔ اس کے ساتھ اس کے بچے اور بیوی بھی موجود تھے ۔ اس نے اترتے ہی ہوائی فائر کیے جس سے بھگدڑ مچ گئی ۔ موقع پر پولیس بھی پہنچ گئی ، ملک سکندر نے پولیس کو مطالبہ پیش کیا کہ پاکستان میں فوری طور پر اسلام نافذ کردیا جائے ۔ ملک سکندر کا ڈرامہ تقریبا چھ گھنٹے تک چلتا رہا جو پاکستان کے اہم ترین ٹی وی چینلز پر براہ راست آخری لمحے تک اس طرح نشر ہوتا رہا کہ ملک کے معروف اینکر اس پر اپنی ماہرانہ رائے دے رہے تھے ۔ ملک سکندر کو خصوصی عدالت نے 16 برس کی سزا سنائی ۔ بعد میں یہ کیس بھی وقت کی گرد میں دب گیا کہ ملک سکندر کہاں گیا ، اس کی اپیل منظور ہوئی کہ نہیں اور ٹی وی چینلز سمیت کسی کو یاد نہیں کہ کون سا سکندر کہاں کا سکندر ۔
اس طرح کے درجنوں واقعات ہیں جنہیں پیش کیا جاسکتا ہے ۔ میں ان دونوں واقعات کو آپ کے سامنے پیش کرنے کی وجہ بتاتا ہوں ۔ مصطفےٰ زیدی کیس جن دنوں عوام کے ذہن پر سوار کردیا گیا تھا ، یہ وہی دن تھے جب مشرقی پاکستان کا تیاپانچہ حتمی طور پر کیا جارہا تھا ۔ ملک سکندر کا ڈرامہ عین اُسی وقت شروع کیا گیا جب مصر میں قابض سیسی اخوان کے مظاہرین پر خونی کریک ڈاؤن کررہا تھا ۔ سیسی نے منتخب صدر مرسی کا تختہ 3 جولائی 2013 کو الٹا تھا جس کے بعد اخوان کے کارکنان پورے مصر میں اور خاص طور پر قاہرہ میں سراپا احتجاج تھے ۔ 15 اگست 2013 کو سیسی نے مصر کو بے گناہوں کے خون سے نہلا دیا تھا اور خدشہ تھا کہ پاکستان میں بھی سیسی کی مخالفت میں مظاہرے نہ شروع ہوجائیں ۔ پورے چھ گھنٹے تک پاکستانی ذرائع ابلاغ پر ملک سکندر چھایا ہوا تھا اور مصر کی خبروں کا بلیک آؤٹ تھا ۔
فوج کی کتاب میں ایک اصطلاح اسموک اسکرین استعمال کی جاتی ہے ۔ اسموک اسکرین کا مطلب ہے کہ اتنی دھول اڑاؤ کہ سامنے والے کو دھول کے علاوہ کچھ نظر نہ آئے کہ اس کے پیچھے کیا ہورہا ہے ۔ یہ دونوں واقعات اسموک اسکرین تھے۔ مجھے یہ واقعات آج کل ارمغان کیس کی رپورٹنگ دیکھ کر یاد آئے ۔ یوٹیوبر سے لے کر مین اسٹریم میڈیا پر یہی چھایا ہوا ہے ۔ ارمغان کی گرل فرینڈ کون ہے ، کس کس کو وہ منشیات سپلائی کررہا تھا ، کیسے منشیات منگواتا تھا ، کال سینٹر کیسے چلاتا تھا وغیرہ وغیرہ ۔
یہ ایک سیدھا سا کیس ہے ۔ دو منشیات فروشوں میں کسی وجہ سے لڑائی ہوئی ۔ وجہ کمیشن بھی ہوسکتا ہے اور گرل فرینڈ بھی یا دونوں ۔ ایک منشیات فروش نے دوسرے کو قتل کردیا ۔ یہ پولیس کا کام ہے کہ وہ مجرم کے خلاف عدالت میں چالان پیش کرے اور مجرم کو اس کے جرم کے مطابق سزا دے دی جائے ۔
اس پورے کھیل میں کسی نے ان ایس ایس پی صاحب کو کچھ نہیں کہا جنہوں نے قتل کے بعد تحقیقات کے بجائے چار دن تک ارمغان کی میزبانی کی اور ان پولیس افسران پر ہی مقدمہ درج کروادیا جو ارمغان کو گرفتار کرنے گئے تھے اور ان پر ارمغان نے فائرنگ کردی تھی جس سے وہ زخمی ہوگئے ۔ ان جج صاحب کے خلاف اس کے علاوہ کوئی کارروائی نہیں کی گئی کہ ان سے انتظامی اختیارات لے لیے گئے جنہوں نے ارمغان کو پولیس ریمانڈ ہی نہیں دیا اورسماعت والے دن انہوں نے اپنے چیمبر میں ارمغان کے والد سے طویل ملاقات کی ۔ اینٹی نارکوٹکس فورس کے کسی ایک اہلکار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جو بیرون ملک سےکوریئر کے ذریعے آنے والے سامان کی جانچ پڑتا ل کے ذمہ دار ہیں ۔ جس کے ذریعے بیرون ملک سے منشیات کی ترسیل مدتوں سے بہ آسانی جاری تھی ۔ ڈیفنس میں ہونے والی پارٹیاں اور اس میں منشیات کے استعمال سے سب آگاہ ہیں تو پھر پولیس اور کسی ایجنسی نے پہلے اور اب اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ بس میڈیا پر چسکے جاری ہیں ۔
ارمغان کی اسموک اسکرین کے پیچھے سب کچھ چُھپ چکا ہے ۔ کسی کو نہیں معلوم کہ بلوچستان کے معاملات مشرقی پاکستان کی طرح no return point کی طرف تیزی سے جارہے ہیں ۔ ملک میں بھی اور بیرون ملک بھی اس پر کام تیزی سے جاری ہے ۔ اس وقت بلوچستان میں کوئی بھی فرد فضائی راستے کے علاوہ محفوظ سفر نہیں کرسکتا ۔ جعفر ایکسپریس کا واقعہ اس کی مثال ہے ۔ کسی کو بات کرنے کی فرصت نہیں ہے کہ خیبر پختون خوا میں بھی حالات اب کسی کے قابو میں نہیں رہے ہیں ۔ اور تو اور اب آزاد کشمیر میں بھی پاکستان مخالف نعرے لگنے لگے ہیں اور عوام میں سے ہی لوگ کمپنی بہادر سے کھلے عام بیزاری کا اظہار کرنے لگے ہیں ۔
کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں کہ سی پیک کے نام پر زبردستی کے دیے گئے قرضے کتنے ہوگئے ہیں اور ان کا سود کتنا ہوگیا ہے ۔ چینی حکومت کی نظر ہمارے گلگت اور بلتستان پر کیوں ہے ۔
ارمغان کیس اُس وقت تک سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر چھایا رہے گا ، جب تک اس کی ضرورت سمجھی جائے گی ۔ پھر یہ بھی کہیں وقت کی گرد میں دب جائے گا ۔ بعد میں پتا چلے گا کہ یہاں تو بغیر رائی کے ہی پہاڑ بنا دیا گیا تھا ۔
اگر زندہ قوم ہیں تو سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کی شعبدے بازی سے باہر آئیے اور حقیقی مسائل پر بات کیجیے ۔ اگر اس بارے میں نہیں سوچیں گے تو پھر وہی ہوگا جس کی عالمی سازش کاروں نے منصوبہ بندی کر رکھی ہے اور ان کے مقامی ایجنٹ تندہی سے اس منصوبہ کی تکمیل کررہے ہیں ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔
hellomasood@gmail.com