غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق شام میں سکیورٹی فورسز اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں میں دوسرے روز بھی مسلح لڑائی جاری رہی، جس میں درجنوں افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
شامی وزارت دفاع کے ترجمان، حسن عبدالغنی کے حوالے سے الجزیرہ نے بتایا کہ سابق صدر کے حامی جنگجوؤں نے جمعرات کو لطاکیہ اور طرطوس گورنریٹس میں کئی مقامات پر سیکیورٹی فورسز پر حملے کیے جو کہ علوی اقلیتی فرقے کے گڑھ ہیں، جس متعدد سیکیورٹی فورسز اہلکار ہلاک ہو گئے۔
شامی حکام نے ہلاکتوں کی تعداد جاری نہیں کی تاہم جنگ پر نظر رکھنے والے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس ( ایس او ایچ آر) کے مطابق دو دن کی لڑائی کے دوران 130 سے زائد افراد مارے گئے ہیں۔جن میں سیکورٹی فورسز، سابق صدر کے حامی اور عام شہری شامل ہیں۔
حکام کے مطابق جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب جمعرات کو اسد کی حامی ملیشیا نے جبلیہ اور آس پاس کے دیہی علاقوں میں گشت پر مامور سیکیورٹی فورسرز اور چوکیوں کو نشانہ بنایا۔
ایس او ایچ آر کے مطابق، جمعہ کو حکومت کے وفادار شام کے ساحل کے قریب شیر، مختاریہ اور حفہ کے دیہات میں داخل ہو کر درجنوں افراد کو ہلاک کر دیا۔
بیروت میڈیا کے مطابق مختاریہ میں 30 سے زائد افراد کو خواتین اور بچوں سے الگ کر کے قتل کیا گیا۔ شام کی سرکاری نیوز ایجنسی ثنا نے سیکیورٹی ذرائع کے حوالہ سے بتایا کہ انفرادی خلاف ورزیاں اس وقت کی گئیں جب حکومتی سیکورٹی اہلکاروں پر حملوں کے بعد بڑے، غیر منظم ہجوم نے ساحلی علاقے کا رخ کیا تھا۔ ان خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے کاروائیاں کی جا رہی ہیں۔
بشارالاسد کے دور میں علوی فرقے کے افراد فوج اور سیکورٹی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ نئی حکومت نے حالیہ ہفتوں میں ملک کی نئی سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں کا الزام اسد کے وفاداروں پر عائد کیا ہے۔
واضح رہے کہ سابق صدر بشار الاسد گزشتہ سال دسمبر میں حکومت کے خاتمے کے بعد فرار ہو کر روس چلے گئے تھے۔