پہلے دور اقتدار میں ہی ٹرمپ کی رال غزہ کی ساحلی پٹی پر ٹپکنے لگی تھی ۔ ٹرمپ کا داماد جیرڈ کشنر اس پورے منصوبے کا خالق ہے ۔ جیرڈ کشنر البانیہ سے لے اسرائیل تک ریئل اسٹیٹ بزنس میں شامل ہے ۔ اُس کی فرم Affinity Partners میں سعودی عرب نے دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جبکہ قطر اور متحدہ عرب امارات گزشتہ دسمبر میں ڈیڑھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ اس کاروبار میں شامل ہوگئے ہیں ۔ Affinity Partners نے عرب ممالک کی اس رقم سے دو اسرائیلی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی ہے ۔ ان میں سے ایک اسرائیلی انشورنس کمپنی Phoenix Holding ہے جبکہ دوسری Sholmo Holding کمپنی کا کار لیزنگ کا ڈویژن ہے ۔ Sholmo Holding کی مالک کمپنی Shmeltzer Holdings اسرائیلی شپ یارڈ کے حصہ داروں میں سے ایک ہے ۔ جیرڈ کشنر ایک صہیونی خاندان سے تعلق رکھتا ہے جو فلسطینیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ارض فلسطین پر بھی قبضے کے خواب دیکھ رہا ہے ۔ ارض فلسطین میں بیرونی یہودیوں کے لیے پہلی بستی روتھس شیلڈ نے تعمیر کی تھی ۔ روتھس شیلڈ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جیرڈ کشنر اس وقت مغربی کنارے پر نئی یہودیوں بستیوں کی تعمیر کے منصوبے مکمل کررہا ہے ۔ نئی بستیوں کی تعمیر سے کشنر کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا ۔ نہ صرف اس کی دولت میں اضافہ ہوا بلکہ اسرائیل میں اس کے اثر و رسوخ میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ۔
غزہ کی ساحلی پٹی پر سیاحتی منصوبے کے تانے بانے بنتے ہوئے کشنر نے ٹرمپ اور نیتن یاہو کو اس منصوبے میں شامل کیا ۔ نیتن یاہو بھی دیگر یہودیوں کی طرح مال کی حرص میں مبتلا ہے ، اس پر اور اس کی بیوی پر اسرائیل میں کرپشن کا کیس چل رہا ہے جو غزہ کی جنگ کی وجہ سے رکا ہوا ہے ۔
کشنر کا منصوبہ نیتن یاہو کے لیے چپڑی اور وہ بھی دو دو کے مترادف تھا ۔ یعنی ایک طرف تو وہ عظیم تر اسرائیل کے منصوبے کو کئی قدم آگے لے جاتا تو دوسری جانب پراپرٹی کے بزنس کا بھاری کمیشن الگ تھا ۔ کچھ یہی صورتحال ٹرمپ کی بھی تھی ۔ اب ضرورت تھی سازشوں کے تانے بانے بننے کی ۔ اس کے لیے ایران کو ٹریپ کیا گیا اور ایران کے ذریعے حماس کو ایک خوفناک جنگ میں دھکیل دیا گیا جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں ۔ اس پورے کھیل میں متحدہ عرب امارات ، قطر اور سعودی عرب کے حکمراں بھی برابر کے شریک ہیں ۔ انہیں بتایا گیا کہ تیل کی دولت اب گزرے زمانے کی بات ہے کہ اب متبادل توانائی پر کام ہورہا ہے ۔ اگر انہوں نے وقت کی باگ نہیں سنبھالی تو انہیں 1960 کی دہائی میں جانے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا ۔ بہتر ہے کہ علاقے میں امن قائم کیا جائے اور نئے بزنس ایمپائر میں شریک ہوجایا جائے ۔ ایران کے پر کُترنے کا مطلب یہ ہے کہ اب یہ عراق ، شام ، یمن ہر جگہ سے رخصت ہوجائے گا ۔ یہ صورتحال سعودی عرب ، قطر ، متحدہ عرب امارات کے لیے بہترین تھی ۔ کہا گیا کہ علاقے سے جب تک فلسطینیوں کو بے دخل نہیں کیا جائے گا ، ان کی شورش کو نہیں روکا جاسکتا اور جب تک یہ علاقہ شورش زدہ رہے گا ، یہاں پر سیاحت نہیں پنپ سکتی ۔ ان کے سامنے پرانے بیروت اور نئے دوبئی مثال کےطور پر پیش کیا گیا ۔ یہ دیکھ کر عرب حکمرانوں کی رال ٹپکنے لگی اور انہوں نے اس منصوبے میں اپنا کردار ادا کرنے پر منظوری ظاہر کردی ۔
رہی بات بیت المقدس کی تو اس کے لیے جیرڈ کشنر کا منصوبہ دین ابراہیمی پہلے سے ہی موجود ہے ۔ ارض فلسطین اور بیت المقدس تو دور کی بات ہے ، ان حکمرانوں کو تو اب بیت اللہ میں بھی مشرکین کی آمد اور بتوں کے رکھنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے ۔
متحدہ عرب امارات میں جتنے بڑے مندر تعمیر کیے گئے ہیں ، اتنے وسیع و عریض مندر تو بھارت اور سری لنکا میں بھی موجود نہیں ہیں ۔ ویسے بھی ہندو مت میں اجتماعی عبادت کا کوئی تصور نہیں ہے ، اس لیے ان کے ہاں مندر زمانہ قدیم میں بھی چھوٹے چھوٹے ہی ہوتے تھے مگر ابوظہبی اور دبئی میں نو تعمیر شدہ مندر جو کہ سرکاری خرچ پر تعمیر کیے گئے ہیں ، دیکھیں تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں ۔
بیت المقدس اب عرب حکمرانوں کا مسئلہ نہیں رہا ہے ۔ ہم کچھ کچھ سقوط غرناطہ والے دور سے گزر رہے ہیں جہاں پر ہر مسلم حکمراں کو اپنی پڑی تھی اور وہ دوسرے مسلم حکمراں کا ہر صورت میں خاتمہ چاہتا تھا اور یوں ایک ایک کرکے پورا اندلس ہی عیسائیوں کی گود میں جا پڑا ۔
زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے کہ ٹرمپ کے Riveria Plan پر عملدرآمد ہو رہا ہوگا ۔ غزہ میں کیسینو اور ہوٹل تعمیر ہو رہے ہوں گے جس میں عرب ممالک کی بھی سرمایہ کاری شامل ہوگی ۔ سرمایہ کاری میں شراکت کی بناء پر ان سارے عرب حکمرانوں کی کوشش ہوگی کہ یروشلم میں اب کوئی انتشار نہ پیدا ہو اور یوں ان کی دولت دن دگنی رات چوگنی ہوتی رہے ۔ صہیونی بھی یہی چاہتے ہیں ۔ ان کی تعداد انتہائی کم ہے ۔ اگر وہ ایسی سازشیں نہیں کریں گے تو عظیم تر اسرائیل کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔
hellomasood@gmail.com