طوفان الاقصیٰ پر سات اکتوبر 2023 کی صبح جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا ، سے لے کر آج تک دو طرح کے ہی ردعمل ہیں ۔ ایک واقعاتی ردعمل ہے جو کہ اکثریت کا ہے ۔ اسرائیل نواز ہوں یا حماس کے حامی ، دونوں ایک ہی جیسا ردعمل دیتے ہیں یعنی فریق مخالف کے نقصان پر خوشی کا اظہار ۔ چونکہ اس میں حماس اور اس کے اتحادیوں کا بھاری نقصان ہوا ، اس لیے اس پر صہیونی دنیا میں زیادہ خوشی پائی جاتی ہے اور مسلم دنیا شدید مایوسی و اضطراب کے عالم میں ہے ۔
دوسرا گروہ وہ ہے جو یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس حملے کے پس پشت مقاصد کیا تھے اور اس حملے کا اصل ماسٹر مائنڈ تھا کون ۔ یہ گروہ انتہائی اقلیت میں ہے ۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ، معاملات پر سے گرد چھٹنا شروع ہوگئی ہے اور ہمیں صورتحال زیادہ واضح طور پر نظر آنا شروع ہوگئی ہے ۔ کسی بھی ایسے اندھے معاملے کے ماسٹر مائنڈ کو ڈھونڈنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کا فایدہ کسے پہنچا ہے ۔ مثال کے طور پر ہم بے نظیر بھٹو کے قتل کو دیکھ سکتے ہیں ۔ بے نظیر بھٹو کے قتل سے سب کو ہی فایدہ پہنچا سوائے بے نظیر بھٹو کے ۔ آپ مشرف ، زرداری سمیت سارے ہی کرداروں کو ایک ایک کرکے دیکھنا شروع کریں تو پتا چلے گا کہ سارے ہی کردار بے محابا فوائد حاصل کرنے والوں میں تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان سارے ہی کرداروں نے کبھی بے نظیر بھٹو کے قاتلوں تک پہنچنے کی سنجیدہ کوشش کے بجائے اسے الجھانے اور وقت کی گرد میں دبانے کی کامیاب کوشش کی ۔
اس کلیے کے تحت طوفان الاقصیٰ کے کرداروں کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ہم اب تک کیا جانتے ہیں ۔ یہاں تک تو بات بالکل واضح اور ثابت شدہ ہے کہ حماس نے اسرائیل پر جو حملہ کیا ، وہ خفیہ نہیں تھا اور اس سے اسرائیل اور اس کے اتحادی یورپی ممالک اور امریکا اور اس کے اتحادی عرب ممالک بہت پہلے سے بخوبی آگاہ تھے ۔ یعنی یہ حملہ اچانک نہیں تھا ۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ اس حملے کے لیے ہر قسم کی مدد و اعانت ایران کے ذریعے فراہم کی گئی ۔
پہلے ہم موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہیں اور پھر یہ بوجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس منصوبہ کے ماسٹر مائنڈ کون تھے اور ان کے کیا مقاصد تھے ۔ ابھی طوفان الاقصیٰ کو شروع ہوئے صرف تین ماہ ہوئے تھے اور بظاہر کسی کو علم نہیں تھا کہ جنگ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کہ مسٹر ٹرمپ کے ہونہار صہیونی داماد جیرڈ کُشنر کا غزہ کی ساحلی پٹی کے بارے میں واٹر فرنٹ پراپرٹی کا بیان سامنے آگیا تھا ۔ کُشنر نے کہا کہ فلسطینیوں کو غزہ کی واٹر فرنٹ پراپرٹی تو سونے کی کان ہے ۔ یہاں سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے (یا مکمل طور پر ختم کرکے ) غزہ کی ساحلی پٹی کو عیاشی و جوئے کے عالمی مرکز میں تبدیل کردیا جائے۔ یہ علاقہ براہ راست امریکا کے ماتحت ہو تاکہ یہاں پر ان کا سکہ ہمہ وقت چل سکے ۔
اب بھی یہی صورتحال ہے جسے مسٹر ٹرمپ کے ریوریا منصوبہ کا نام دیا گیا ہے ۔ تھوڑی سی تبدیلی یہ آئی ہے کہ مسٹر ٹرمپ اس بات سے دستبردار ہوگئے ہیں کہ تمام فلسطینیوں کوغزہ سے مکمل طور پر بے دخل کردیا جائے ۔ اب وہ اس پر تیار ہوگئے ہیں کہ فلسطینیوں کو پیچھے کی طرف دھکیل کر سمندر کے سامنے کی زمین پر فرنٹ واٹر پراپرٹی منصوبے کے تحت سیاحتی عمارات تعمیر کی جائیں ۔ ان عمارات میں کیسینو ہوں ، دنیا بھر سے طوائفیں یہاں لائی جائیں اور فائیو اسٹار و سیون اسٹار ہوٹل موجود ہوں ۔ رہے فلسطینی تو انہیں ایک دیوار تعمیر کرکے ، اس کے عقب میں انہیں قید کردیا جائے ۔
مسٹر ٹرمپ کے اس منصوبے پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سمیت پوری عرب دنیا نے صاد کرتے ہوئے اسے اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دیا ہے کہ انہوں نے فلسطینیوں کے بے دخلی کے منصوبے کے امریکی منصوبے کو ناکام بنادیا ہے ۔
اب دیکھتے ہیں کہ طوفان الاقصیٰ کے تحت ہونے والی کارروائی میں کس نے کیا کھویا اور کیا پایا ۔ سب سے پہلے فوائد سمیٹنے والوں کو دیکھتے ہیں ۔ اسرائیل نے ایک جست میں ہی کئی قدم آگے بڑھا لیے ۔ لبنان ، غزہ اور مغربی کنارے سمیت اس کے سامنے کوئی ملیشیا موجود نہیں ہے جو اسے مستقبل قریب میں چیلنج کرسکے ۔ اس نے حزب اللہ اور حماس سمیت تمام جنگجو تنظیموں کی افرادی قوت اور سامان حرب کو ٹھکانے لگادیا ہے ۔ شام میں گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ مکمل کرلیا ہے ۔ آس پاس سے کہیں نام کی بھی مزاحمت کے آثار باقی نہیں رہے ۔
اس پورے معاملے سے سب سے بڑی منفعت حاصل کرنے والی ٹرمپ اینڈ کمپنی ہے ۔ مسٹر ٹرمپ نے غزہ کی جنگ بندی کے لیے جس شخصیت کو اپنا نمائندہ مقرر کیا وہ خود ایک بہت بڑا پراپرٹی ڈیلر ہے ۔ 67 سالہ اسٹیو وٹکوف کا نام نیویارک کی پراپرٹی مارکیٹ میں جانا مانا ہے ۔ خود ٹرمپ بھی امریکا سے باہر نکل کر جس خطہ کی پراپرٹی میں سرمایہ کاری کررہے ہیں وہ سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ ہے ۔ ٹرمپ کے امریکا میں گیارہ گولف ٹاور پراپرٹیز ہیں ، امریکا سے باہر دو اسکاٹ لینڈ اور ایک آئرلینڈ میں ہے ۔ تاہم اب ٹرمپ کے نشانے پر عرب دنیا ہے ۔ سو یورپ اور امریکا سے باہر ٹرمپ گولف گراؤنڈ اومان اور دبئی میں بنائے گئے ہیں ۔ اومان میں 200 ملین ڈالر سے ٹرمپ سگنیچر ولاز بھی تعمیر کیے جارہے ہیں ۔ یہ ولاز ٹرمپ انٹرنیشنل گولف کلب کے احاطے میں تعمیر کیے جائیں گے ۔
اس کے بعد ٹرمپ نے سعودی عرب کا رخ کیا اور گزشتہ جولائی میں جدہ میں ایک ساحلی پروجیکٹ کا اعلان کیا جو رہائشی اور تجارتی مقاصد کے ساتھ ساتھ سیاحتی مقصد کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا ۔ دبئی بھی ٹرمپ کے سامنے ہے ۔ 2005 میں یہاں پام ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل اینڈ ٹاور تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم 2011 میں اس منصوبے کو منسوخ کردیا گیا ۔ گزشتہ جولائی میں اس منصوبے کو دوبارہ سے بحال کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ دبئی میں بھی ٹرمپ نے 2017 میں ٹرمپ انٹرنیشنل گولف کلب قائم کیا تھا ۔
ٹرمپ اندھا دھند دولت کمانا چاہتے ہیں ۔ ان کے سامنے روتھس شیلڈ خاندان موجود ہے جو پوری دنیا کی دولت پر قابض ہے ۔ اس کے لیے وہ امریکا سے باہر نکل کر عرب دنیا کی دولت سمیٹنا چاہتے ہیں ۔ وہ یوکرین کی معدنیات پر قبضہ کرنے کی ڈیل کرچکے ہیں ۔ انہیں مشرق وسطیٰ اور سعودی عرب سرمایہ کاری کے لیے بہت پسند ہے ۔ اس کی وجہ یہاں کے مطلق العنان بادشاہ ہیں ۔ یہ سب ٹرمپ کے سامنے ایک کمپلیکس میں مبتلا ہیں اور اُس کی دوستی پر فخر کا اظہار کرتے ہیں ۔ ٹرمپ کو جو لامتناہی وسائل و مواقع یہاں دستیاب ہیں وہ کہیں اور پر نہیں ہیں ۔ یورپ اور امریکا میں ٹرمپ کو قانون کی پابندی کرنی پڑتی ہے ۔ یہاں پر اس کا اپنا ہر لفظ خود قانون ہے ۔ ٹرمپ کے محمد بن سلمان پر اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ فیملی ایک گولف لیگ کا قیام عمل میں لائی ہے جس کی فائنانسنگ مکمل طور پر سعودی عرب کے سرکاری فنڈز سے کی گئی ہے ۔ میامی میں اس سال اپریل میں اس لیگ کا مسلسل چوتھا ٹورنامنٹ ہو گا جس کے لیے سرمایہ حسب سابق سعودی عرب کی حکومت مہیا کرے گی ۔
اسرائیل اور ٹرمپ کے علاوہ فایدہ حاصل کرنے والوں میں صہیونی بھی ہیں کہ اب بیت المقدس کو شہید کرکے تیسرا ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کے راستے سے ساری رکاوٹیں ایک ایک کرکے صاف ہورہی ہیں ۔
یہ تو فائدہ حاصل کرنے والوں کی فہرست تھی ۔ کھونے والوں کی فہرست بھی کچھ زیادہ طویل نہیں ہے ۔ سب سے پہلا نقصان براہ راست فلسطینیوں کو ہی ہوا ۔ غزہ ان کے ہاتھ سے گیا ، مغربی کنارے میں بسنے والے عرب بھی اب معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں ۔ یوں اب اسرائیل کو اندر سے کوئی خطرہ نہیں ۔
لبنان میں اس کے سامنے حزب اللہ کا خطرہ ہر آن موجود تھا ۔ سو اب یہ کانٹا بھی ہمیشہ کے لیے نکل گیا ۔ شام میں ایک کٹھ پتلی کو ہٹا کر دوسری کٹھ پتلی حکومت قائم کردی گئی ہے اور یوں شام کا ایک تذویراتی علاقہ گولان اس کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ اب گولان سے نکلنے والی معدنیات اور تیل شام کے عوام کی ملکیت نہیں رہا بلکہ اب اس پر باقاعدہ اسرائیل کا قبضہ ہوچکا ہے جسے شام کی نئی کٹھ پتلی حکومت سمیت پوری دنیا نے خاموشی سے تسلیم کرلیا ۔
ایران کا فوجی اور سیاسی اثر و رسوخ خطہ سے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا ہے ۔ اب ایران کو ایران تک ہی محدود کردیا گیا ہے ۔ ایران اب افغانستان اور پاکستان میں تو پراکسی وار لڑ سکتا ہے مگر عراق ، شام ، یمن ، لبنان ، بحرین اور فلسطین میں اس کے پر کاٹ دیے گئے ہیں ۔
طوفان الاقصیٰ کے ماسٹر مائنڈ پر مزید گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔
hellomasood@gmail.com