رپورٹ: مسعود انور
پاکستان میں ادویات کی قیمتوں، معیار کو چیک کرنے اور غیر معیاری ادویات کو مارکیٹ سے ہٹانے کا ذمہ دار ادارہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان( ڈریپ) ہی موت بانٹنے لگ گیا۔ پاکستان میں کوئی بھی ادارہ یا فرد کوئی بھی دوا بلا روک ٹوک مارکیٹنگ کرنے کے لیے آزاد ہے۔ بس اسے ڈریپ نامی مافیا کو خوش رکھنا ہے۔
اپنی کھال بچانے کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان گاہے بگاہے کال الرٹ جاری کرتا رہتا ہے جو ریکارڈ پر تو رہتا ہے مگر کسی بھی غیر معیاری دوا کو مارکیٹ سے واپس لینے کو نہ تو یہ ادارہ یقینی بناتا ہے اور نہ ہی مذکورہ غیر معیاری دوا کی تیاری اور مارکیٹنگ کی ذمہ دار ادارے کے خلاف کوئی عملی تادیبی کارروائی کی جاتی ہے ۔ غیر معیاری ادویہ تیار کرنے والی ان کمپنیوں میں غیر معروف ادویہ ساز کمپنیاں ہی شامل نہیں ہیں بلکہ ان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں سنوفی ایونٹس، جی ایس کے اور روش جیسی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔

ڈریپ یا ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان اپنی ویب سائٹ پر روز ہی ایک ری کال الرٹ جاری کرتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ کس کمپنی کی کون سی دوا غیر معیاری ہے اور انسانی جان کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ اگر کوئی معروف کمپنی جیسا کہ سنوفی ایونٹس ہو تو الرٹ میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کے انجکشن فلیجل کے بیچ نمبراے ڈی 482 میں غیر معیاری اجزا شامل ہیں اور اس سے بخار، سردی ، اعضا کے فیل ہونے سے لے کر موت کا شکار بھی ہوا جاسکتا ہے۔

یا یہ الرٹ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ جی ایس کے کی تیار کردہ موٹیوال ٹیبلیٹ کے فلاں فلاں بیچ نمبر (یہ کوئی 35 بیچ ہیں ) کے تحت تیار کردہ دوا کو کئی واقعات میں صحت کے لیے غیر موزوں رپورٹ کیا گیا ہے اور اسے کمپنی رضاکارانہ طور پر واپس لے رہی ہے۔ یا یہ الرٹ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لاروسکوربائن انجکشن روش کمپنی کے نام سے جعلی طور پر تیار کرکے مارکیٹ میں فروخت کیا جارہا ہے جو انسانی جان کے لیے خطرہ ہے۔ ان تینوں اقسام کے الرٹ میں موجود ادویات عام طور پر ڈاکٹر بڑے پیمانے پر اپنے مریضوں کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔
جعلی اور غیر معیاری ادویات کتنے بڑے پیمانے پر ملک کے گلی کوچوں تک پھیلے لاکھوں میڈیکل اسٹورز پر بیچی جا رہی ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ رواں سال کے ڈیڑھ ماہ کے دوران ڈریپ نے 20 مقامی اور بین الاقوامی ادویہ ساز کمپنیوں کی 23 ادویات کے جعلی اور غیر معیاری ہونے کا ری کال اور ریڈ الرٹ جاری کیا، جبکہ گزشتہ سال 114 ادویات کے حوالے سے 45 ری کال، ریڈ الرٹ اور ریپڈ الرٹ جاری کیے۔
ان ادویات میں ملٹی وٹامن ، فولک ایسڈ، درد کش اور روز مرہ استعمال کی ایسی ادویات بھی شامل ہیں جو عموماً شہری بغیر کسی ڈاکٹر کے نسخہ کے میڈیکل اسٹور سے خرید لیتے ہیں۔

کراچی پیپرز کے سوالات کے جوابات میں حیرت انگیز طور پر ڈریپ یہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کے ان الرٹ کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ کتنی دوائیں مارکیٹ سے واپس آئیں اور کتنی استعمال ہوگئیں ۔ حقائق یہ ہیں کہ دوا ساز کمپنی یا ڈریپ زیادہ سے زیادہ یہ جان سکتی ہیں کہ کون سی دوا کا کون سا بیچ کس شہر میں فروخت کیا گیا ہے ۔
مزید یہ پتا چلایا جاسکتا ہے کہ کس ڈسٹری بیوٹر کے ذریعے یہ فروخت کے لیے پیش کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد کوئی دستاویزی ٹریل موجود نہیں کہ اسے شہر میں کون سا ریٹیلر فروخت کررہا ہے اور نہ ہی ان سے کوئی رابطہ کرتا ہے۔ نہ ہی ڈریپ کے پاس تمام میڈیکل اسٹورز کا ڈیٹا موجود ہے جس کے ذریعے ان تمام میڈیکل اسٹورز کو وارننگ جاری کی جاسکے ۔ الرٹ میں ڈریپ یہ بھی نہیں بتاتی کہ جس بیچ نمبر کو نقصان دہ پایا گیا ہے وہ کس شہر میں فروخت کے لیے بھیجا گیا تھا ۔

فی الحال ڈریپ محض ایک الرٹ جاری کرکے بیٹھ جاتی ہے اور مذکورہ کمپنی سے بھاری رشوت کے عوض معاملہ دبا دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ملٹی نیشل کمپنی ہو تو اسے آگاہ کردیا جاتا ہے اور پھر وہ رضاکارانہ واپسی کا الرٹ جاری کردیتی ہے ۔ اگر معاملہ زیادہ گمبھیر ہو تو کہہ دیا جاتا ہے کہ مارکیٹ میں جعلی ادویہ فروخت کی جارہی ہیں ۔
ہر صورت میں اس کا نقصان مریض کو ہوتا ہے اور وہ بھاری قیمت میں دوا خریدنے کے بعد صحت یاب ہونے کے بجائے اس کی طبعیت مزید خراب ہوجاتی ہے اور اکثر اسے جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں ۔

ڈریپ کی اس مجرمانہ روش کی مثال انڑپور جامشورو سندھ کا سات سالہ بچہ ہے جو کتے کے کاٹنے کے سبب 16 فروری کو جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس بچے کو ایک ماہ قبل آوارہ کتے نے کاٹا تھا اور اس کے چچا کے مطابق بچے کو کتے سے کاٹے کی ویکسین بھی لگائی گئی تھی۔
ڈریپ کے ریکارڈ کو دیکھیں تو اس نے 27 ستمبر 2024 کو الرٹ جاری کیا تھا کہ بھارتی شہر غازی آباد میں بائیو میڈ کمپنی کے نام سے تیار کردہ کتے کے کاٹے کی ویکسین جعلی پائی گئی ہے ۔ مگر ڈریپ نے نہ تو جعلی ویکسین کو مارکیٹ سے ہٹانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی اور نہ ہی اس کے سپلائرز کے خلاف کوئی ایکشن لیا۔
