ریاست کا چوتھا ستون کہلانے والے ادارے صحافت کے محنت کش صحافی بھی اجرت نہ ملنے اور حق کے حصول کے لیے عدلیہ ،پیمرا اور ایوانوں کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مبجور ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے آگے قانون کے نفاذ اور اس پر عملدرآمد کرانے والے ادارے بھی بے بس نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں محنت کشوں کا استحصال کوئی نئی بات نہیں لیکن اس بار صحافتی شعبے کے وہ محنت کش اور مزدور سرمایہ دارانہ اور ملکی بوسیدہ نظام کا تختہ مشق بنے ہیں جس کو ریاست کا چوتھا اور مضبوط ستون قرار دیا جاتا ہے۔ نام نہاد صحافتی ادرے جو اب صرف سرمایہ دار کی دکان بن کر رہ گئے ہیں اور عامل صحافیوں کا استحصال جاری ہے۔

صحافیوں کے واجبات کے نادہندہ تو تقریباً سب ہی ادارے ہیں۔ جن میں الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیا بھی پیش پیش ہے۔ روزنامہ جسارت میں اول تو پے اسکیل ہی انتہائی کم ہے تاہم اس ادارے نے عدالت میں بھی جھوٹا حلف نامہ جمع کرایا ہے کہ ادارے میں تنخواہیں ویج بورڈ کے تحت دی جا رہی ہیں، جس کے خلاف متعدد صحافیوں نے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔
دوسری جانب گزشتہ دنوں جسارت کے ایڈیٹر سمیت کئی افراد کو انتظامیہ نے بغیر کسی نوٹس کے فارغ کر دیا، جبکہ امت ، جیو ٹی وی، آج ٹی وی، نیو ، نیوز ون اور دیگر اداروں میں ایک جانب تنخواہیں تاخیر کا شکار ہیں اور دوسری جانب ان اداروں میں گزشتہ کئی سال سے تنخواہوں میں اضافہ بھی نہیں کیا گیا۔ جیو سے تو متعدد صحافیوں کو تنخواہوں میں اضافہ کے مطالبہ پر فارغ کر دیا گیا تھا۔
صحافیوں کے اس استحصال میں سر فہرست پاکستان کا خود کو سب سے بڑا چینل کہلانے والا ڈائیوو کے مالک سمیر چشتی کا ادارہ بول ہے جس کا سابق مالک ایگزٹ کا شعیب شیخ تھا۔ بول کی انتظامیہ 375 ملازمین کے مجموعی طور پر 40 کروڑ 70 لاکھ 49 ہزار 452 روپے کی نادہندہ ہے۔

بول کی نئی انتظامیہ نے کنٹرول سنبھالتے ہی یک جنبش قلم سیکڑوں صحافیوں کو واجبات کی ادائیگی کے بغیر ملازمت سے فارغ کر دیا اور جب طویل عرصے تک واجبات ادا نہ کیے گئے تو پہلے متاثرین نے احتجاج کیا اس کے بعد پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگلیولیٹری اتھارٹی ( پیمر ا) کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
پیمرا کی کونسل آف کمپلین نے ملازمین اور بول انتظامیہ کو نوٹس جاری کیا تو ملازمین نے پیش ہوکر پیمرا کی جانب سے مانگا جانے والا تمام ریکارڈ پیش کردیا لیکن بول کے وکیل نہ صرف ٹال مٹول کرتے رہے بلکہ وہ کونسل آف کمپلین کی جانب سے طلب کردہ دستاویزات بھی فراہم کرنے میں ناکام رہے ۔
آخر کار کونسل آف کمپلین نے متعدد سماعتوں کے بعد بول انتظامیہ کے خلاف فیصلہ جاری کردیا اور حکم دیا کہ ملازمین کے واجبات بلا تاخیر ادا کیے جائیں۔ بول انتظامیہ نے پیمرا کے فیصلے کو ہوا میں اڑاتے ہوئے نہ صرف فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا بلکہ پیمرا کی جانب سے اشتہارات کی بندش کے حکم کو بھی نہ مانا گیا۔

دوہزار تئیس میں پارلیمنٹ سے منظور کردہ قانون کے مطابق کوئی بھی صحافتی ادارہ ملازمین کے واجبات دو ماہ کے اندر ادا کرنے کا پابند ہے۔ بصورت دیگر متعلقہ ادارے کے اشتہارات بند اور لائسنس معطل کیا جاسکتا ہے، تاہم ان دونوں میں سے کوئی بھی ایکشن نہیں لیا گیا، ذرائع کے مطابق بول انتظامیہ کا طاقتور حلقوں تک رسائی ہے جس کے باعث ادارے فیصلوں پر عمل میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔

بول انتظامیہ نے پیمرا قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملازمین کو بغیر کسی نوٹس کے ملازمت سے نکالا ہے ۔ کئی ملازمین کو تو فون کرکے کہا گیا کہ وہ کل سے آفس ناں آئیں ۔ رائج طریقہ کار کے تحت نکالے جانے والے ملازمین کو نہ تو بقایاجات دیئے گئے اور نہ ہی ایک ماہ کی اضافی تنخواہ۔
صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں کے احتجاج، پیمرا کو یاددہانی خطوط کے باوجود بول انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہوئی اور تاحال صحافیوں کا استحصال جاری ہے۔ صحافیوں کے ساتھ اس استحصال کی بازگشت اب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی ) تک بھی پہنچ گئی ہے اور اس نے بھی انتظامیہ کے اس عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جس سے نہ صرف بول کی بلکہ انسانی حقوق کے علبردار ملکی اداروں کی بھی بدنامی ہو رہی ہے۔

معاشی بدحالی کا شکار ملازمین اب عدالتوں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں لیکن بیشتر مہنگے وکیل کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ملکی قوانین کی پاسداری کرنے والوں کا تو کوئی پرسان حال نہیں لیکن آئین اور قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کو ہر سہولت میسرہے۔