یادش بخیر ، یہ 15 اپریل 1985 کی دوپہر کا واقعہ ہے ۔ کراچی میں ناظم آباد پہلی چورنگی پر واقع سرسید گورنمنٹ گرلز کالج کی چھٹی ہوئی تھی اور طالبات کا جم غفیر معمول کے مطابق اپنے گھروں کو جانے کے لیے باہر نکلا ہوا تھا کہ ریس لگاتی ایک منی بس نے سگنل پر کھڑی دوسری منی بس کو ٹکر دے ماری جس کی وجہ سے اگلی منی بس روڈ پار کرتی لڑکیوں سے جا ٹکرائی ۔ اس ٹکراؤ کی وجہ سے کئی لڑکیاں شدید زخمی ہوئیں جبکہ ایک بیس سالہ طالبہ بشریٰ زیدی جاں بحق ہوگئی ۔ اس حادثہ کے خلاف موقع پر موجود بچیوں نے احتجاج شروع کر دیا اور دھرنا دے دیا ۔ یہاں تک سب کچھ معمول کے مطابق تھا ۔ یعنی روڈ ایکسیڈنٹ اور پھر احتجاج ۔ مگر رات گئے تک اس حادثہ کو ایم کیو ایم نے ہائی جیک کرلیا اور پورے شہر میں جگہ جگہ منی بسوں اور دیگرروڈ ٹرانسپورٹ کو منظم طریقے سے بلا روک ٹوک آگ لگانی شروع کردی ۔ کچھ دیر کے بعد ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے تعلق رکھنے والے افراد جو بدقسمتی سے ایک ہی لسانی گروپ سے تعلق رکھتے تھے ، یعنی پختون ، کا ردعمل آنا شروع ہوگیا ۔

ایک دن کے اندر اندر سڑک پر ہونے والا حادثہ جو یقینا اتفاقی تھا اور ڈرائیور کی لاپرواہی کا نتیجہ تھا ، کراچی میں لسانی فسادات میں تبدیل کیا جا چکا تھا ۔ اس کے بعد اس آگ میں مزید ایندھن ڈالا گیا ۔ یعنی اورنگی ٹاؤن میں علی گڑھ کالونی پر حملہ ، پکا قلعہ حیدرآباد کے جلسے میں جانے والی بسوں پر سہراب گوٹھ میں الاصف اسکوائر کے فلیٹوں کی چھت پر سے فائرنگ وغیرہ وغیرہ اور یوں کراچی کو کمپنی بہادر نے ایم کیو ایم کے حوالے کردیا ۔ ایم کیو ایم نے جو جنگ پنجابی قابضین کے خلاف شروع کی تھی وہ 20 برسوں میں پختونوں کے خلاف اور پھر سندھیوں کے خلاف جنگ میں تبدیل ہوگئی اور پھر سارے گیگسٹرز اپنے علاقوں پر حکمرانی کرنے لگے ۔ لسانی تفریق کا سب کو فائدہ تھا ۔ ہر جانب مجرمین کا طوطی بول رہا تھا اور سب مزے میں تھے ۔

اس وقت ایم کیو ایم کے صف اول کے جنگجوؤں میں عامر خان اور آفاق احمد دونوں ہی شامل تھے ۔ آفاق احمد اب نجی محفلوں میں تسلیم کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ اسکرپٹڈ تھا ۔ یعنی بشریٰ زیدی کے روڈ حادثہ تک تو معاملات قدرتی تھے ، اس کے بعد سے سب کچھ اسکرپٹ کے عین مطابق پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا تھا ۔

بشریٰ زیدی روڈ حادثہ کے تقریبا 34 برس بعد وہی منظر دوبارہ سامنے ہے ۔ اب ڈمپر اور ٹینکروں سے ہونے والے حادثات ہیں ۔ یعنی سڑک پر ہونے والے کسی بھی حادثہ کو لسانی رنگ دے دینا ۔ اتفاق سے اس مرتبہ بھی کردار وہی ہیں ۔ یعنی ایم کیو ایم اور سامنے پختون ٹرانسپورٹ برادری ۔
پہلے ہم ان حادثات کو دیکھتے ہیں اور پھر بوجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بشریٰ زیدی کیس کا ری پلے کراچی میں کیوں کیا جارہا ہے ۔ یہاں تک تو بات بالکل درست ہے کہ جب کراچی شہر میں دن کے اوقات میں ڈمپروں اور بھاری گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے تو پھر یہ دن میں کیسے نظر آرہے ہیں ۔ تو انہیں سڑک پر آنے سے روکنے کی ذمہ داری کس پر ہے ؟ سب سے پہلا نمبر آتا ہے ٹریفک پولیس کا جو کراچی پولیس کے ماتحت ہے ۔ ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹریفک وارڈن کی ایک فوج ظفر موج بھی بھرتی کی گئی تھی جو بلدیہ کراچی کے ماتحت ہے ۔ تو ذمہ دار کون ہوا ، ٹریفک پولیس کا سیکشن آفیسر، ڈی ایس پی ، ایس ایس پی ، ڈی آئی جی ، آئی جی اور پھر وزیر اعلیٰ سندھ ۔ ٹریفک وارڈن کی ذمہ داری ان کے افسران سے ہوتی ہوئی ڈپٹی میئر ، میئر کراچی اور وزیر بلدیا ت پر آتی ہے ۔گزشتہ دو تین دن کے ہونے والے حادثات میں ہم نے دیکھا کہ یہ بھاری ڈمپر تیز رفتار تھے اور رک نہیں پائے ۔ یہ روڈ پار کرنے والے آہنی پلوں سے بھی جا ٹکرائے ، فلیٹوں کی باؤنڈریوں سے بھی اور پولیس موبائل سے بھی ۔ تو ان کی فٹنس کون دیتا ہے ۔ یہ فٹنس دیتا ہے روڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کا محکمہ جو فی گاڑی رشوت وصول کرکے فٹنس سرٹیفکٹ جاری کردیتا ہے ۔ تو دوبارہ سے تان وزیر اعلیٰ سندھ پر ہی آ کر ٹوٹتی ہے ۔

اصولی طور پر حادثات میں مرنے والوں کے قتل عمد کا مقدمہ ڈی آئی جی ٹریفک ، آئی جی سندھ ، میئر و ڈپٹی میئر کراچی ، وزیر بلدیات سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف نہ صرف درج ہونا چاہیے بلکہ ان کے خلاف مقدمات چلا کر انہیں سزا بھی دی جانی چاہیے کہ ان سب نے اپنے فرائض سے جان بوجھ کر کوتاہی کی جس کی وجہ سے قیمتی جانیں ضایع ہوئیں ۔ مگر ایسا نہیں ہوا ۔
ہوا کیا ؟ سرکاری سرپرستی میں محفوظ اور سرکاری رہائش گاہ میں رہائش پذیر ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد نے اچانک انگڑائی لی اور ڈمپر ڈرائیوروں اور مالکان کو الٹی میٹم دے ڈالا ۔ اس کے اگلے ہی روز ان کے مجاہد باہر نکلے اور انہوں نے نہ صرف ڈمپروں کو راستے سے اغوا کیا بلکہ انہیں اپنے دفتر کے سامنے لا کر آگ لگا دی تاکہ پتا رہے کہ یہ سب کس نے کیا ہے ۔

جوابی طور پر کمپنی بہادر کے دوسرے کردار جو ڈمپر مالکان کی ایسوسی ایشن کے سربراہ ہیں ، نے پریس کانفرنس کی اور جوابی الٹی میٹم دے ڈالا کہ آفاق احمد کو فوری گرفتار کیا جائے ۔ انہوں نے صرف الٹی میٹم ہی نہیں دیا بلکہ اسکرپٹ کے عین مطابق مولا جٹ انداز میں بڑھکیں بھی ماریں کہ یہ دو دو ٹکے مہاجر لونڈے اب سامنے آئے تو انہیں روند ڈالا جائے گا ۔
لیجیے جناب ، اب لسانی فسادات کے کھیل کا میدان پوری طرح گرم کیا جا چکا ہے ۔ آفاق احمد گرفتار ہیں اور جیل میں اپنے سوئٹ میں مزے کررہے ہیں ۔ ایک بات اور دیکھنے کی ہے کہ کراچی میں قاتل ٹرانسپورٹ میں کردار ڈمپروں سے بھی زیادہ واٹر ٹینکروں کا ہے ۔ یہ اربوں روپے ماہانہ کمانے کا دھندا ہے ۔ جس میں اوپر سے لے کر نیچے تک سارے ہی شامل ہیں ۔ اس کے لیے باقاعدہ پانی کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے ، پانی کی مین پائپ لائنیں پھاڑی جاتی ہیں ، شہر میں جگہ جگہ ٹوٹی ہوئی مین پائپ لائنوں کی مرمت نہیں کی جاتی ۔ اور پھر پورے شہر میں واٹر ٹینکروں کے ذریعے پانی فروخت کیا جاتا ہے ۔ یہ زیادہ دن پرانی بات نہیں ہے کہ شہر میں کورونا کے باعث مہینوں لاک ڈاؤن لگا رہا تھا ۔ اس دوران پورے شہر میں پانی کی کوئی قلت نہیں تھی ۔ شہر کے کونے کونے میں لائنوں سے بلا روک ٹوک ہر گھر میں وافر مقدار میں پانی آرہا ہے ۔ لاک ڈاؤن کے باعث اُس پورے عرصے میں ٹینکر سروس بند رہی تھی مگر ڈیفنس سے لے کر سرجانی تک ، مجال ہے کہیں سے آواز بلند ہوئی ہو کہ پانی نہیں ہے ۔ جیسے ہی لاک ڈاؤن ختم ہوا ، ٹینکر سروس بحال ہوتے ہی پانی کی قلت دوبارہ پیدا ہو گئی ۔ ویسے یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ کراچی میں بھی ٹینکر سروس کا پہلا ٹھیکا رینجرز کے پاس ہی تھا ۔ پھر اس میں دیگر مافیاز بھی شامل ہوتی چلی گئیں اور اب سب مل کر ہنسی خوشی کیک میں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں ۔

اب اصل سوال کی طرف آتے ہیں کہ اصل مجرموں کی طرف بات کرنے کے بجائے اسے لسانی رنگ کیوں دیا جا رہا ہے ۔ جاننے والے کہتے ہیں کہ کمپنی بہادر کو خدشہ ہے کہ الطاف حسین دوبارہ سے کراچی میں اپنے پنچے گاڑ رہا ہے ۔ زہر کا علاج زہر کے مصداق مہاجر لیڈرشپ آفاق احمد کو دینے کے لیے یہ کھیل رچایا گیا ہے ۔ اس علاج میں کراچی پھر لہو لہو ہوگا ، یہاں پر محنت مزدوری کرنے والے پٹھان دوبارہ سے دربدر ہوں گے ، چائے خانے اور تندور چلانے والے پٹھان پھر سے کراچی سے فرار ہونے پر مجبور ہوں گے ۔ اس کے جواب میں کراچی کے رہائشی افراد پر بلوچستان کی سرزمین تنگ کردی جائے گی کہ کراچی میں چائے خانے اور تندور کے مالکان عمومی طور پر بلوچستان کی پختون بیلٹ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کراچی والے ذرا کم کم ہی وزیرستان یا قبائلی علاقوں میں جاتے ہیں ۔
تو جناب کراچی میں بشریٰ زیدی حادثہ کا ری میک تیار ہے ۔ سارے اداکار آزمودہ اور منجھے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے کردار کو بخوبی ادا کرنا جانتے ہیں ۔ دیکھتے ہیں کہ ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کیا چاہتے ہیں ۔ کب تک یہ منڈلی ان کے قابو میں رہے گی اور کب یہ جن قابو سے باہر ہو کر دوسروں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش
hellomasood@gmail.com