رپورٹ مسعود انور
بلدیہ کراچی کے زیر انتظام واحد یونیورسٹی کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی ( کے ایم یو) نے اساتذہ اور ملازمین کی تنخواہوں سے ماہانہ کٹوتیوں کے باوجود محکمہ انکم ٹیکس میں ملازمین کا ٹیکس ہی جمع نہیں کروایا جس کے باعث محکمہ انکم ٹیکس نے تمام ملازمین کو فوری طور پر ٹیکس جمع کروانے اور نہ جمع کروانے کی صورت میں سنگین نتائج کے نوٹس جاری کردیے ۔
محکمہ انکم ٹیکس کے نوٹس کے باعث کے ایم یو ملازمین میں شدید بے چینی پھیل گئی ہے کہ وہ لاکھوں روپے یکمشت کیسے ایک دو دن میں جمع کروائیں ۔ دوسری طرف یہ بھی جواب دینے والا کوئی نہیں ہے کہ ان کی تنخواہ سے ٹیکس کی جو کٹوتی ہوئی تھی ، اس کا کیا ہوگا ۔
واضح رہے کہ کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی جس کا سابقہ نام کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج تھا ، بلدیہ کراچی کے زیر انتظام ہے ۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب یونیورسٹی بننے کے بعد اب اس کے پرو وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں ۔ یہ کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ بلدیہ کراچی نے ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کے باوجود اُس رقم کو محکمہ انکم ٹیکس میں جمع کروانے کے بجائے کہیں اور خرچ کرلیا ۔
کے ایم یو یونیورسٹی کے ذرائع کا کہنا ہے مرتضیٰ وہاب نے کے فنڈز جان بوجھ کر روکے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے یونیورسٹی کی انتظامیہ روز مرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس طرح کی رقوم استعمال کرنے پر مجبور ہے ۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کراچی دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کے ایم یو کو اس کی ماہانہ گرانٹ ہی جاری نہیں کررہے ہیں جس کی وجہ سے معاملات اتنی ابتری تک پہنچے ہیں ۔
یونیورسٹی کے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت یونیورسٹی پر پنشن فنڈز، ٹیکس اور دیگر واجبات کی مد میں پچاس کروڑ سے زاید کی رقم ہوچکی ہے ۔ جس کے لیے کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی کی انتظامیہ نے میئر کراچی اور وزیر اعلیٰ سندھ دونوں سے 50 کروڑ روپے کے فوری بیل آؤٹ پیکیج کی درخواست کی ہے مگر اس درخواست کو میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے سرد خانے کی نذر کیا ہوا ہے ۔
کراچی پیپرز کے اس سوال کے جواب میں کہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور دیگر ملازمین ایف بی آر کے نوٹس کے جواب میں کیا کریں جنہیں فوری طور پر ٹیکس کی رقم جمع کروانے اور نہ جمع کروانے کی صورت میں انہیں ڈیفالٹر قرار دے کر تادیبی کارروائی کی وارننگ جاری کی گئی ہے ، یونیورسٹی انتظامیہ نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اب دوبارہ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سے بیل آؤٹ پیکیج کی درخواست کریں گے ۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا کہ ان کے ہاتھ میں درخواست کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ۔ دوسری جانب ملازمین انتہائی پریشان ہیں کہ وہ کیسے دوبارہ سے یکمشت اتنی بھاری رقم ایف بی آر میں جمع کروائیں۔