ٹرمپ یوں تو مسند اقتدار پر 20 جنوری 2025 کو مسند نشیں ہوئے مگر اس سے قبل سے ہی ان کی بڑھکیں جاری ہیں ۔ کبھی کسی پوری قوم کو وہ انتہائی خوفناک نتائج کی دھمکی دیتے ہیں تو کبھی پورے خطہ کو جہنم میں تبدیل کرنے کا مژدہ سنا دیتے ہیں ۔ ان کے غضب کا نشانہ ان کے حریفوں کے ساتھ ساتھ حلیف بھی ہیں ۔ ابھی تک وہ فضا میں تلوار لہرا لہرا کر ہر ایک کو جہنم واصل کرنے کی دھمکی دیتے نظر آرہے ہیں ۔

ان سے نہ ان کے پڑوسی خوش ہیں اور نہ ہی سات سمندر پار دنیا کے دوسرے کنارے پر بسنے والے ممالک کے باسی ۔ امریکیوں کے لیے ان کا نعرہ انتہائی خوش کن ہے یعنی سب سے پہلے امریکا ۔ اسی نعرے سے مسحور ہو کر انہیں پورے امریکا میں اتنی زبردست پذیرائی ملی کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کو بھی پسپا ہونا پڑا اور اسے ٹرمپ کے لیے ایوان اقتدار کا راستہ خالی چھوڑنا پڑا ۔

کہنا ہمیشہ سے بہت آسان رہا ہے ۔ ہمارے اپنے ملک پاکستان میں بھی سیاسی رہنما روز ہی منہ کے بے اندازہ فائر کرتے نظر آتے ہیں ۔ 1977 میں پاکستان قومی اتحاد کے رہنما شاہ احمد نورانی اور اصغر خان اقتدار ملنے پر مہنگائی کم کرنے اور 1970 کی سطح پر قیمتیں لانے کے نعرے لگایا کرتے تھے ۔ اس سے قبل بھٹو نے ہر ایک شہری کے لیے روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کیا تھا ۔ بعد میں نواز شریف قرض اتارو اور ملک سنوارو کا پروگرام لے کر آئے ۔ عمران خان نے سوچا کہ کہنا ہی ہے تو کم کیوں کہا جائے ، سو انہوں نے سب سے زیادہ ہی بلند بانگ دعوے کردیے ۔ یعنی کروڑوں نوکریاں ، مکانات ، ڈالر کے مقابلے میں روپے کا استحکام ، امن و امان ، پاکستانی پاسپورٹ کی تکریم میں اضافہ وغیرہ وغیرہ ۔ ان سب دعووں کو دیکھا جائے اور حکمرانوں کی کارکردگی کو پرکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ہوا اس کے برعکس ہی ۔ یعنی بھٹو دور حکومت میں مزید لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ، نواز شریف دور حکومت ختم ہوا تو پتا چلا کہ قرضوں کے انبار میں تو مزید کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے ، قرض اتارو اور ملک سنوارو کے لیے عوام سے جو رقم جمع کی گئی تھی وہ ڈبل شاہ کی طرح کہیں بھاپ بن کر اڑ گئی ہے ، عمران خان کے دور حکومت میں تو مہنگائی میں اضافے نے وہ رفتار پکڑی کہ الامان اور الحفیظ ۔ پاکستانی پاسپورٹ کی تکریم میں تو کیا اضافہ ہوتا ، یہ دنیا کے چار بدترین پاسپورٹوں کی صف میں جا شامل ہوا وغیرہ وغیرہ ۔

کچھ ایسا ہی ٹرمپ کے ساتھ ہے ۔انہوں نے کہا کہ چین ، کینیڈا اور میکسیکو جیسے ممالک نے امریکا کو ڈمپنگ گراؤنڈ میں تبدیل کردیا ہے ۔ اس لیے ان ممالک سے درآمدات پر 25 فیصد تک درآمدی ٹیکس لگادیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سمیت دیگر ممالک کو بھی نہیں بخشا جائے گا اور ان ممالک سے بھی درآمدات پر بھاری ٹیکس لگایا جائے گا ۔ مسٹر ٹرمپ کا کہناہے کہ ان تمام ممالک سے امریکا کا توازن تجارت منفی میں ہے ۔ یعنی ان تمام ممالک سے امریکا میں درآمدات تو بھرپور ہیں مگر برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ اس لیے جب تک توازن تجارت برابر نہیں ہوتا ، ان ممالک سے درآمدات پر بھاری ڈیوٹی عاید رہے گی ۔ ساتھ ہی مسٹر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیر ملکی تارکین وطن نے امریکا میں کھپ مچا کر رکھی ہوئی ہے ۔ اب امریکا میں شہریت کا حصول مشکل بنا دیا جائے گا اور جو بھی غیر قانونی تارکین وطن موجود ہیں ، انہیں فوری طور پر ان کے ملک کو کارگو کردیا جائے گا ۔ وہ قانونی تارکین وطن جو کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہیں ، ان کی شہریت بھی منسوخ کردی جائے گی اور انہیں بھی ان کے سابقہ وطن کو روانہ کردیا جائے گا ۔
ایک نظر میں دیکھیں تو ایک امریکی کے لیے یہ سارےاعلانات اور اقدامات انتہائی خوبصورت ہیں ۔ اسے محسوس کروایا گیا ہے کہ ایک گورا امریکی جنت میں رہ رہا تھا جسے چینی ، جنوبی ایشیائی اور لاطینی و جنوبی امریکی ممالک سے آنے والے تارکین وطن نے جہنم میں تبدیل کردیا ہے ۔ اسی طرح دیگر ممالک نے امریکا کو اپنی منڈی میں تبدیل کرکے ، ان کی معیشت کو تباہ کردیا ہے ۔ کیا ایسا ہی ہے ۔ آئیے دیکھتے ہیں ۔
سب سے پہلے تو سمجھنے کی چیز یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں وہی چیز درآمد ہوتی ہے جس کی وہاں پر ضرورت یا کھپت ہوتی ہے اور عمومی طور پر وہ چیز وہاں پر یا تو ضرورت سے کم پیدا ہو رہی ہوتی ہے یا پھر موجود ہی نہیں ہوتی ۔ مثال کے طور پر امریکا کینیڈا سے سستا تیل درآمد کرتا تھا ۔ اب امریکا کی جانب سے کینیڈا پر 25 فیصد اضافی ڈیوٹی کا مطلب ہوگا کہ یہ تیل اب بھی امریکا آئے گا مگر اس کی قیمت امریکیوں کو 25 فیصد مزید ڈیوٹی ادا کرنی پڑے گی ۔ اگر وہ کینیڈا سے نہیں لیں گے تو انہیں دیگر ممالک سے لینا پڑے گا ۔ وہ بھی کینیڈا سے سابقہ آنے والے تیل سے لامحالہ مہنگا ہوگا تب بھی امریکیوں کو زاید قیمت ادا کرنی پڑے گی ۔ کینیڈا سے تیل کی درآمد کا نیٹ ورک پہلے سے موجود ہے ۔ دیگر ممالک سے درآمد کرنے کی صورت میں روڈ ٹرانسپورٹ کا استعمال مزید بڑھ گا جس سے دیگر مسائل بھی پیدا ہوں گے ۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جیسے سیمی کنڈکٹر تو وہ چین سے لینے ہی لینے ہیں کہ اس کا نعم البدل کہیں اور دستیاب نہیں ہے ۔ یعنی امریکی مارکیٹ میں مہنگائی کا طوفان تو آنا ہی آنا ہے ۔ اس سے برآمدات کرنے والے ممالک سے زیادہ امریکی شہری خود متاثر ہوں گے ۔
اب امریکا سے کیا لیا جائے کہ مسٹر ٹرمپ کا غصہ کم ہو ۔ تو جناب وہی کیا جاسکتا ہے جو مسٹر مودی نے کیا یعنی امریکا میں کچھ پیدا ہورہا ہوتا تو امریکا وہ سب کچھ پہلے سے برآمد کررہا ہوتا ، درآمدات پر انحصار نہیں کررہا ہوتا ۔ امریکا میں صرف اور صرف اسلحہ بنتا ہے اور مسٹر مودی نے اسی کی ڈیل کرلی ۔ اس ڈیل کے ہوتے ہی مسٹر ٹرمپ کے تاثرات مودی کے لیے بالکل تبدیل ہوچکے تھے ۔ وہی مودی جنہیں بھارتی سفارتخانہ سرتوڑ کوششوں کے بجائے ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب کا دعوت نامہ دلوانے میں ناکام رہا تھا ، اب ٹرمپ کے دوبارہ سے بھائی بن چکے تھے اور دونوں ایک دوسرے کے شانے پر ہاتھ رکھے بے تکلفی سے قہقہہ لگانے میں مصروف تھے ۔

مگر اس ڈیل کا امریکیوں اور بھارتیوں کو کیا فائدہ ہو گا ۔ دیکھنے میں یہ ٹرمپ اور مودی دونوں کی جیت ہے ۔ ٹرمپ نے امریکیوں کے لیے دسیوں ارب ڈالر کی ڈیل کی اور اب دیکھنے میں بھارت کے ساتھ امریکا کا توازن تجارت بہتر ہوجائے گا ۔ مودی نے بھارتی صنعت کو ٹرمپ کے اضافی درآمدی ٹیکس سے بچایا اور امریکا کو بھارت کی درآمدات بلا روک ٹوک حسب سابق جاری رہیں گی ۔ مگر حقیقت میں اس کا فائدہ نہ امریکیوں کو ہوگا اور نہ بھارتیوں کو۔ اس کا فایدہ صرف اور صرف ملٹی نیشنل اسلحہ ساز کمپنیوں کو ہوا ۔
یہ اسلحہ ساز کمپنیاں نہ امریکا کی ہیں اور نہ ہی امریکا میں ایک ڈالر ٹیکس کی ادائیگی کرتی ہیں ۔ یہ کیریبین جزائر میں رجسٹرڈ ہیں اور سارا پیسا بلا کسی ٹیکس کی ادائیگی کے باہر منتقل کردیتی ہیں ۔ اسی طرح اسلحہ کی خریداری کسی بھارتی کے مفاد میں نہیں ۔ یہ اسلحہ پرانے اسلحے کی طرح رکھے رکھے ایکسپائر ہوجائے گا اور بھارتیوں کی جیب سے دسیوں ارب ڈالر مفتے میں اسلحہ ساز فیکٹریوں کے مالکان کی جیب میں منتقل ہوجائیں گے ۔
اس وقت دنیا میں کہیں بھی جنگ نہیں ہورہی ۔ افغانستان ، عراق ، شام ، یمن ، یوکرین سارے میدان جنگ اب بند ہوچکے ہیں ۔ تو اب یہ اسلحہ ساز فیکٹریاں کیا کریں ۔ انہوں نے امریکی انتخابات میں بھاری سرمایہ کاری کی اور ٹرمپ اقتدار میں آنے کے بعد ان کے سیلز ایجنٹ کا کردار ادا کررہا ہے ۔ وہ ڈنڈے کے زور پر اسلحہ ساز فیکٹریوں کا اسلحہ بکوا رہا ہے بالکل اُسی طرح جس طرح سے مودی کے ساتھ ڈیل میں ہوئی۔ لامحالہ سیلز ایجنٹ کو اچھی ڈیل کی صورت میں بھاری کمیشن ملتا ہے سو وہ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو بھی ملے گا ۔

ایک عام امریکی گورا انتہائی نکما ہے ۔ یہ تارکین وطن ہی ہیں جو امریکا کو سنبھالے ہوئے ہیں ۔ امریکی آئی ٹی انڈسٹری سے لے کھیتوں کھلیانوں تک امریکا کو تارکین وطن نے ہی سنبھالا دیا ہوا ہے ۔ حتیٰ کہ امریکی آبادی کو برقرار رکھنے کا سہرا بھی ان کے ہی سر پر ہے ورنہ اب تک امریکا بھی روس ، جاپان ، جنوبی کوریا اور یورپی ممالک کی طرح آبادی میں کمی کے بحران کا شکار ہوچکا ہوتا ۔
اب تارکین وطن کو ان کے ممالک واپس بھیجنے ، نئے امیگریشن کو مشکل بنانے کا نتیجہ امریکا میں انسانی وسائل کی کمیابی کی صورت میں نکلے گا ۔ تو مسٹر ٹرمپ امریکی معیشت اور امریکی سلامتی دونوں کے لیے دو دھاری تلوار کا کردار ادا کررہے ہیں ۔
مشکل وقت میں دوست ہی کام آتے ہیں تو ٹرمپ نے سب سے پہلا کام ہی یہ کیا کہ دوستوں سے چھٹکارا حاصل کیا ۔ یورپی ممالک ، کینیڈا ، آسٹریلیا کون ہے جو اس وقت امریکا سے خوش ہے اور برے وقت میں امریکیوں کے ریسکیو کو آگے بڑھے گا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا اب قدرتی تنزلی کا سفر شروع کرچکا ہے ۔
ون ورلڈ گورنمنٹ کا بلیو پرنٹ دوبارہ سے دیکھیں ۔ پہلے سارے ممالک کو چھوٹے یونٹوں میں تبدیل کرنا اور پھر انہیں دس انتظامی یونٹوں کے تحت کرنا ۔ تو عالمی سازش کاروں نے امریکا میں بھی اپنا کام شروع کر دیا ہے ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش
hellomasood@gmail.com