رپورٹ: مسعود انور
کراچی میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا ہے ، کیا وہ ایسا ہی ہے جو پیش کیا جارہا ہے ۔ جانتے ہیں حقیقت حال ۔ جس طرح اسلامی اور افریقی ممالک کے وسائل ہی اِن کا جرم بن گئے ہیں اور پوری دنیا کی مافیا اُن پر ٹوٹ پڑی ہے ۔ بالکل اِسی طرح کراچی کی ساڑھے تین کروڑ کی آبادی ہی اِس کا جرم بن گئی ہے ۔ یہ صارفین کی اتنی بڑی منڈی ہے کہ اِسے دیکھ کر ہر مافیا کے منہ میں پانی آ جاتا ہے ۔

ایک زمانے میں کراچی تعلیم کے معیار کے لحاظ سے پورے ملک میں مثال کے طور پر پیش کیا جاتا تھا ۔ یہاں کا سیکنڈ ڈویژن بھی ملک کے دیگر تعلیمی بورڈز کے فرسٹ ڈویژن سے بہتر سمجھا جاتا تھا ۔ امتحانات میں گروہ کی شکل میں نقل کا تصور تک نہیں تھا جبکہ اندرون سندھ یہ عام سی بات تھی ۔

پھر کراچی میں ایم کیو ایم کا راج آیا اور نقل کروانا باقاعدہ کاروبار بن گیا ۔ امیدواروں سے پیسے لے کر نقل کروانا ، اسلحہ بند جتھوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔ مہاجر علاقوں میں یہ کام ایم کیو ایم ، لیاری میں بلوچ گینگسٹرز، پختون علاقوں میں اے این پی اور سندھی اکثریت علاقوں میں یہ کام جئے سندھ کررہی تھی اور یہ سب اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کروڑوں کما رہے تھے ۔

دیکھنے میں یہ بات چھوٹی لگتی ہے مگر ہے نہیں ۔ کبھی آپ نے سوچا کہ دو روپے کی سپاری اور ٹافی بیچنے والے اربوں روپے کمارہے ہیں، کیسے ؟ وہ اس طرح کی ان کی فروخت اتنی زیادہ ہے کہ پیسہ پیسہ کرکے یہ سالانہ اربوں روپے کمالیتے ہیں ۔
اسے یوں دیکھیں کہ کراچی کے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں اگر 30 ہزار امیدوار شرکت کرتے ہیں اور ان میں سے صرف دس ہزار امیدواروں سے پانچ سو روپے فی پرچہ بھی وصول کیا جائے تو فی پرچا یہ رقم پچاس لاکھ بن جاتی ہے ۔ اور اگر دس پرچوں پر بدمعاشی ٹیکس کو شمار کیا جائے تو یہ وصولی پانچ کروڑ بن جاتی ہے ۔ محض پندرہ دن میں پانچ کروڑ کمانا بُرا آئیڈیا نہیں تھا ۔ وہ بھی آج سے 35 برس قبل جب کروڑ کا سُن کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی تھیں ۔

اسلحہ بند جتھوں نے جب نقل کو باقاعدہ کاروبار بنایا تو سندھ حکومت کے افسران نے سوچا کہ اس بہتی گنگا میں وہ کیوں نہ ہاتھ دھوئیں اور انہوں نے بھی یہ کاروبار شروع کردیا ۔ پہلے پہل یہ کاروبارکراچی میٹرک بورڈ میں پوزیشنوں کی فروخت سے شروع ہوا ۔ پرائیویٹ اسکولز اپنے اسکول کے بچوں کی پوزیشن کے لیے نیلامی میں حصہ لیتے تھے ۔ اسکول کی پوزیشن آنے کا مطلب تھا ، کاروبار میں دن دگنا اور رات چوگنا اضافہ ۔ والدین سمجھتے تھے کہ پوزیشن والے اسکول کی تدریس کا معیار انتہائی اعلیٰ ہے اور وہ منہ مانگی فیسیں دے کر بھی اس اسکول میں بچوں کو داخلہ دلانے کی کاوش میں لگ جاتے تھے ۔

کہتے ہیں کہ ہوس کی کوئی حد نہیں ہوتی ۔ اب فرنٹ مین اور گیگسٹرز بورڈ میں داخل ہوگئے ۔ پوزیشن کے بعد اب گریڈز برائے فروخت ہوگئے اور اس نیلامی میں کوچنگ سینٹرز بھی داخل ہوگئے کہ ہم سے پڑھنے والے اتنے بچوں نے اے ون گریڈ حاصل کیا ۔ یوں کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ اور کراچی میٹرک بورڈ کے سربراہان اور ناظمین امتحانات راتوں رات کروڑوں میں کھیلنے لگے ۔ اسے دیکھ کر بیوروکریسی کے دیگر افسران کے منہ میں بھی پانی آنے لگا اور تعلیمی بورڈز میں تعیناتی کے لیے ریس شروع ہوگئی ۔ اب وزیرا علٰی ہاؤس اور گورنر ہاؤس میں بورڈز کے سربراہان اور ناظمین امتحانات کی تقرری کے لیے منڈی لگنے لگی ۔ یہاں سے کراچی کے شہریوں کی بدقسمتی کا نیا دور شروع ہوا ۔

جس طرح سے تھانے بکتے ہیں اسی طرح ایک ایک سال کے لیے بھاری رشوت کے عوض تقرریاں شروع ہوگئیں اور کراچی کا تعلیمی معیار مزید پاتال میں پہنچ گیا ۔ مگر ابھی بھی صورتحال قابو میں تھی کہ عام آدمی کا اعتبار ابھی تک کراچی کے بورڈز پر سے ختم نہیں ہوا تھا ۔
مافیاز نے سوچا کہ سونے کا انڈا دینے والی اس مرغی پر ہی کیوں نہ قبضہ کرلیا جائے ۔ وہ مسلسل خبریں پڑھ رہے تھے کہ اے اور او لیول کے امتحانات کے ذریعے کیمبرج بورڈ پاکستان سے کتنا کما رہا ہے ۔ ایک خبر کے مطابق 2023 میں صرف او لیول کے پاکستانی امیدواروں سے کیمبرج بورڈ نے 42 ارب روپے وصول کیے ۔ اے لیول کے امیدواروں سے وصولی الگ ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ برس او اور اے لیول کے امیدواروں سے برطانوی بورڈ نے ایک سو ارب روپے کے قریب وصول کیے ۔
اے اور او لیول کا امتحان کراچی کا ہر طالب علم نہیں دیتا ۔ ان کی تعداد کراچی میٹرک اور انٹرمیڈیٹ بورڈ سے امتحانات دینے والوں کے مقابلے میں دس فیصد بھی نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میدان کھلا ہے اور کئی کھرب روپے سالانہ چھوٹی سی سرمایہ کاری سے کمائے جاسکتے ہیں ۔ بورڈز کا عملہ نسبتا کم ہوتا ہے اور کوئی چخ چخ بھی نہیں ۔ یعنی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ۔

یوں بااثر افراد کو سندھ اسمبلی سے تعلیمی بورڈز کے قیام کے باقاعدہ اجازت نامے جاری کردیے گئے ۔ تعلیمی بورڈ تو قائم ہوگیا مگر طلبہ اس وقت ان تعلیمی بورڈز کا رخ نہیں کریں گے جب تک کراچی کے تعلیمی بورڈز پر سے والدین کا اعتبار مجروح نہ کردیا جائے ۔ اس کے لیے اب باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کام شروع کیا گیا ۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔
اس کے لیے بس یہ کرنا تھا کراچی کے تعلیمی بورڈز میں انتہائی نااہل اور انتہائی بدعنوان افسران کی تعیناتی اور ان کرپٹ افسران کو کھُل کھیلنے کی مکمل آزادی ۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا کہ بورڈز کے مالکان بلاول ہاؤس کے چہیتوں میں بھی ہیں اور ہر ایک کے آگے اُس کی اوقات کے مطابق ہڈی ڈالنے میں بھی کمال مہارت رکھتے ہیں ۔ یہی وہ مرحلہ تھا جو ہم نے اس برس کراچی کے طلبہ کے ساتھ ہوتے دیکھا۔

کراچی کے طلبہ اس برس میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں داخلے سے محروم رہ گئے ۔ اس پر ہر طرف شور اور ہاہا کار مچی ہوئی ہے ۔ کچھ نہیں ہوگا کہ یہ سب طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق ہے اور یہ قربانی کے بکرے تھے ۔

اب والدین کیا کریں گے ۔ انہیں اپنے بچوں کا مستقبل عزیز ہے ۔ یہ کراچی کے تعلیمی بورڈز سے ناتا توڑ کر ان غیر سرکاری بورڈز کا رُخ کریں گے ۔ شروع میں یہ غیر سرکاری تعلیمی بورڈز انتہائی کم فیسوں پر امتحان لیں گے مگر جب کراچی میٹرک بورڈ اور کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ کا حال پاکستان پوسٹ آفس جیسا ہوجائے گا تو پھر یہ من مانی فیس وصول کرنے میں آزاد ہوں گے ۔

اور یوں موجاں ہی موجاں ۔ مال کمانے کے لیے کوئی محنت نہیں ، تعلیمی بورڈ ایک ایسا درخت ہے جس پر پھل ہر برس گزشتہ برس سے زیادہ ہی آئے گا۔
کراچی پر مافیاز کا راج ہے ۔ یہ نہ تعصب کا کھیل ہے اور نہ لسانیت کا ۔ لوٹنے والوں کا نہ تو کوئی مذہب ہے ، نہ کوئی سیاسی پارٹی اور نہ زبان اور قبیلہ ۔ یہ سب ایک لوٹ مار کلب کے رکن ہیں ۔ مشہور محاورہ ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ۔ مگر یہ محاورہ نامکمل ہے ۔ مکمل محاورہ یوں ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں مگر نوالہ توڑتے وقت یہ نہ صرف برابر ہوتی ہیں بلکہ ایک دوسرے کی معاون بھی ۔