کراچی پیپرز : (رپورٹ ناصر داوڑ ) شمالی وزیرستان میں آبپاشی کے لیے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے منظور 10چیک ڈیمز کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر گھپلوں، پیشگی چیکس، غیر قانونی طور پر ڈیمزکے تعمیراتی مقام کی تبدیلی اور دیگر بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
مذکورہ ڈیمز رزمک، شودت خیل ، زوال الگدکٹی پنگا، فرقان کاسہ اسد خیل، سرکئی،ستر سروبی، ڈانگو دم خیل، موسکی اور لکے اسد خیل کے مقام پر تعمیر کیے جانا تھے۔
ان ڈیمز میں سے متعدد ڈیمز کا زمین پر وجود ہی نہیں اور خیبر پختونخوا سرکار نے کروڑوں روپے کے فنڈز بھی جاری کر دیے، جبکہ بعض کا مقام بھی بغیر کسی منظوری کے تبدیل کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ڈیمز پر کام کا آغاز علاقے کے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے گھپلے کی نشان دہی کے بعد شروع کیا گیا۔

ڈیمز کی تعمیر میں ہونے والی کرپشن اور خلاف ضابطہ فنڈز کے اجرا پر ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان کی جانب سے قائم انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق شمالی وزیرستان میں 10مقامات پر بارش کا پانی محفوظ کرنے کیلئے چیک ڈیمز بنانے کا منصوبہ منظور کیا گیا تھا۔ جس کی تخمینی لاگت 9 کروڑ 19لاکھ روپے لگائی گئی تھی ۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ان ڈیمز میں نوال ولیج رزمک کے بارے میں بتایا گیا کہ اس کو مکمل کرلیا گیا، جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس تھے اور نوال ڈیم پر کام شروع ہی نہیں ہوسکا ۔ شودت خیل ڈیم کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ یہ مکمل ہے، تاہم درحقیت اس مقام پر اس پر کام شروع نہیں ہوا بلکہ اس کا مقام بغیر کسی منظوری کے تبدیل کردیا گیا، جہاں اس پر کام سست روی سے جاری ہے۔اس ڈیم کے حوالے سے تین مشکوک بل بھی کلیئر کیے گئے ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ فرقان کاسہ اسد خیل پر بھی کوئی کام شروع نہیں کیا گیا، سرکئی ڈیم پر صرف مقام کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں اس ڈیم کی ادائیگیوں پر چھان بین کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق زوار الگدکٹی پنگا دلیل خیل ڈیم کا صرف 40 فیصد کام مکمل ہوا ہے، مگر یہ کام بھی تب شروع کیا گیا ہے جب ان کے خلاف انکوائری شروع ہوئی۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ پنگے کوہی پری کے مقام پر ڈیم پر 80 فیصد کام کیا گیا ہے، ستر سروبی ڈیم پر کام مکمل ہے، تاہم ناقص تعمیراتی کام کے باعث اس سے پانی رس رہا ہے۔ ڈانگو دم خیل ڈیم کا مقام بھی تبدیل کردیا گیا ہے اور اسے تقریبا 20 کلومیٹر دور تعمیر کیا گیا ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق موسکی ڈیم کا کام مکمل ہونے کا دعوی کیا گیا، تاہم اس پر صرف ایک ماہ قبل ہی کام شروع کیا گیا ہے۔ لکے اسد خیل ڈیم پر سب سے بہترین کام ہوا ہے، تاہم اس کے بارے میں بھی معلومات انتہائی کم فراہم کی گئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق چیک ڈیمز پر تعمیراتی کام کے آغاز سے پہلے پیشگی ادائیگیوں کا اجراء کا معاملہ ایگزیکٹیو انجینئر محکمہ آبپاشی شمالی وزیرستان کی توجہ میں لایا گیا اور اس معاملے پر ریکارڈ اور رپورٹ فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی، تاہم بدقسمتی سے اس معاملے کو نظر انداز کر دیا گیا اور کوئی جواب نہیں ملا۔
رزمک میں نوال چیک ڈیم اور گیریم میں شودت خیل چیک ڈیم کے لیے بغیر کسی تعمیراتی کام کی شروعات کے پیشگی ادائیگیاں کی گئی تھیں ، یہ اقدام بے ضابطگی کے مترادف ہے۔ محکمہ آبپاشی کی جانب سے ضروری دستاویزات کی کمی کی وجہ سے اسکیموں کی فزیبلٹی کی تصدیق کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔
محکمے نے تعمیراتی کام شروع کیے بغیر منصوبے کی لاگت کے 8 فیصد تک کی تکنیکی فنڈ کی منظوری دی تھی اور یہ منظوری بغیر کسی جواز کے دی گئی تھی۔ جس سے قومی خزانے پر غیر ضروری مالی بوجھ پڑا ہے۔

انکوائری رپورٹ میں مذکورہ ڈیموں کے ٹھیکہ داروں کو جعلی پیمائشی حسابات (ایم بی ایس ) کی بنیاد پر پیشگی ادائیگی کا بھی انکشاف کیا گیا جس سے کام کے معیار پر سمجھوتہ ہوا ہے۔ ان ایم بی ایس بکس پر جعلی دستخط کیے گئے اور بعض پر سپریٹنڈنگ انجینئر کے دستخط ہی موجود نہیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق چیک ڈیمز کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں، غفلت اور حکومتی وسائل کا غلط استعمال ثابت ہوا ہے اور کام کے معیار پر سمجھوتہ کیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر نے رپورٹ میں سفارش کی کہ محکمہ آبپاشی کے ذریعہ ہونے والی تمام اسکیموں کا مکمل ریکارڈ فراہم کیا جائے، تاکہ اسکیموں کا مکمل جائزہ لیا جاسکے اور مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بغیر ڈیم کے مقامات کو تبدیل نہ کیا جائے، جبکہ منصوبوں کے کوآرڈینیٹس کو لازمی قرار دیا جائے۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا سرکار کا دعویٰ ہے کہ چیک ڈیمز پر کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔کراچی پیپرز نے جب اس حوالے سے ایکسین شمالی وزیرستان، نیک عمل خان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ بعض ڈیمز پر کام سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ انھوں نے فنڈز کی عدم دستیابی بتائی ہے۔ جبکہ ایک سب ڈویژنل آفیسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کراچی پیپرز کو فنڈز کی خلاف ضابطہ اجرا کی تصدیق کی ہے۔

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیمز پر کام کا آغاز ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان کی جانب سے انکوائری شروع ہونے کے بعد کیا گیا۔ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان نے مذکورہ رپورٹ سیکرٹری آبپاشی، وزیر اعلی خیبر پختونخوا، سیکرٹری ترقی و منصوبہ بندی، کمشنر بنوں ڈویژن اور دیگر حکام کو بھی ارسال کی ہے۔